Wednesday November 27, 2024

سیاست سے نابلد مگر اپنی خوبصورتی کے بل پر ووٹ حاصل کرنے کے لیے کوشاں پریانکا گاندھی کی اصل کہانی جو آپ کو حیران کر ڈالے گی

سیاست سے نابلد مگر اپنی خوبصورتی کے بل پر ووٹ حاصل کرنے کے لیے کوشاں پریانکا گاندھی کی اصل کہانی جو آپ کو حیران کر ڈالے گی

چندے آفتاب و چندے ماہ تاب پریانیکا کی آمد آمد ہے۔ اس نے 4 فروری کو کھمبہ میلے پر گنگا میں ڈبکی لگاکر اشنان کیا اور سارے پاپ دھوکرسیاست میں آمد کا اعلان کیا۔ بھارت کے گدلے اور آلودہ سیاسی منظر نامے میں پریانیکا کا طلوع خوشگوار اضافہ ہے ۔یہ اپنی دادی اندرا گاندھی کا پرَتو ہے۔گاندھی خاندان کی سیاست کے مرکزی دھارے میں برسوں بعد واپسی ہورہی ہے۔ پہلے بھارتی وزیراعظم اور برصغیر کی سیاست کا انمٹ کردار، جواہر لعل نہرو اکلوتی بیٹی اندراگاندھی کی پوتی پریانکا کو اپنی دادی کی تصویر قرار دیاجارہا ہے۔

صرف مشابہت ہی نہیں’ پریانیکا کا انداز وبیان اور رکھ رکھاؤ بھی دادی جیسا ہے اس لئے میدان سیاست میں اس کے روشن اور تابناک مستقبل کی پیشگوئیاں کی جارہی ہیں۔ یو پی کانگریس کی سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے پریانکا کی سیاسی زندگی کا پہلا امتحان آمدہ بھارتی انتخابات میں ہونے جارہا ہے، اس کا اصل ہدف جنونی ٹولے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا مضبوط سیاسی مورچہ اترپردیش ہے اور مدمقابل مودی جیسا جنونی قاتل ہے۔ بھارتی انتخاب میں اپنے بھائی اور کانگریس کے صدر راہول گاندھی کے ساتھ مل کر اگر وہ بی جے پی کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی تو یہ بھارتی سیاست میں پریانیکا’ گاندھی’ کی واپسی اور بی جے پی کی سیاسی موت ہوگی۔12جنوری 1972 کو پیدا ہونے والی پریانیکا سابق وزیراعظم راجیو گاندھی اور سونیا کی بیٹی ہیں اوروہ نہرو خاندان کا سیاسی چہرہ بن کر بھارتی سیاست کے افق پر طلوع ہورہی ہیںچندے آفتاب و چندے ماہ تاب پریانیکا’جنونی ہندو توا اور پاگل پن کے مقابل سیکولر اور جمہوری روایات کا عظیم اثاثہ لئے میدان میں اتری ہیںاس کے توشہ خانے میں تین وزرا اعظم کے بڑے منفرد اثاثے ہیں۔ پڑداد جواہر لعل نہرو، دادی اندراگاندھی، والد راجیو گاندھی وزیراعظم رہے، اس منفرد شناخت نے بھی انہیں مضبوط سیاسی حوالے فراہم کررکھے ہیں اور بھارت کی قدیم ترین، بانی جماعت کا مضبوط سیاسی ورثہ اور ترکہ بھی ان کے پاس موجود ہے۔نفسیات میں تعلیم حاصل کرنے والی پریانیکا کو بودھ مت اور اہنِسا کے مبلغ عظیم مہاتما بدھ میں خصوصی دلچسپی ہے اور اس نے 2010ء میں بودھ مت میں ایم اے کیاتھا۔ رابرٹ وھدرا سے 1997ء میں شادی کی جس سے ہائی سکول میں ملاقات ہوئی تھی۔ ان کے دو بچے ہیں۔ وھدرا خاندان کا تعلق سیالکوٹ سے ہے جو تقسیم کے وقت بھارت چلا گیا تھا۔ یہ بھارت کا ممتاز سرمایہ دار اور امیر گھرانہ شمار ہوتا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پریانیکا کے لئے اس کے شوہر رابرٹ ودرا کے سکینڈل سیاست میں مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں۔ اروند کیجریوال نے رابرٹ وھدرا پر زمین پر قبضے کا الزام لگایا اور 300 کروڑ کے ہیر پھیر میں ملوث قرار دئیے گئے۔

رابرٹ ودرا کی والدہ سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھتی ہیں۔کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے اپنی ہمشیرہ پریانیکا کو جب گزشتہ ماہ یو پی سیکریٹری جنرل بنانے کا اعلان کیا تو مخالفین سمیت ہر ایک کے لئے یہ چونکا دینے والی خبر تھی۔ انہیں اتر پردیش ریاست کی خصوصی ذمہ داری سونپتے ہوئے وہاں مہم کا انچارج بھی بنایا گیا ہے۔ یہ وہ بھارتی ریاست ہے جہاں سے سب سے زیادہ تعداد میں لوک سبھا میں ارکان آتے ہیں۔ یہ ریاست بھارت کی آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست ہے۔ یہاں بی جے پی اور مودی کے پاگل پن کا سکہ چل رہا ہے۔ گزشتہ برس بی جے پی کی ریاستی انتخابات میں شکست کے آثار واضح ہونے، معیشت اور نوکریوں کے حوالے سے عوامی بے چینی کو دیکھتے ہوئے کانگریس نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔47سالہ پریانیکا کو اپنی دادی اندرا گاندھی سے مشابہت کی وجہ سے خاص عوامی پزیرائی مل رہی ہے۔ کانگریس کا خیال ہے کہ عوامی مقبولیت کی بناء پر پریانکا ان کے لئے ’سیاسی لکشمی‘ثابت ہوگی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اصل نکتہ اور چیلنج یہ ہوگا کہ پریانکا نہروگاندھی فیملی سے جْڑے ان سیاسی رہنماؤں کو دوبارہ کانگریس کی سیاسی اور انتخابی قوت بنا پائیں گی جو نہرو گاندھی خاندان کی سیاسی عمل میں براہ راست عدم موجودگی کی بناء پر الگ یا غیر فعال ہوگئے تھے۔پریانکا کی دادی سے مشابہت نے کانگریس کے حامیوں کو نیا ولولہ بخشا ہے۔ ان کے حامیوں کے رجحان کا اس امر سے اندازہ لگایاجارہا ہے جب وہ پریانکا کو دیکھ کرکہتے ہیں ’یہ اندرا گاندھی کی واپسی ہے۔‘ کانگریس کے حامیوں کا یہ بھی تبصرہ ہے کہ کاشتکار راہول گاندھی کو وزیراعظم اور پریانکا کو وزراعلی دیکھنا چاہتے ہیں۔لکھنؤ کی گلیاں اور بازار پریانکا کے پوسٹرز سے سجے ہیں، کانگریس کے ہزاروں حامی ڈھول کی تھاپ پر اپنے جوش وخروش کا مظاہرہ کرتے دیکھے جارہے ہیں۔ راہول گاندھی نے انہیں مخاطب کرکے پرجوش انداز میں کہا کہ پریانیکا اور گوالیار میں کبھی حکمران خاندان کے چشم وچراغ اور ایم پی جیوتیرادتیا سکندیا کو ذمہ داری اس لئے دی ہے کہ اتر پردیش میں کانگریس کی حکومت بنے۔ انہوں نے اترپردیش کو بھارت کا دل قرار دیا تو حامیوں کا جوابی ردعمل دیدنی تھا۔چار مرتبہ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی ’آئرن لیڈی‘ کے نام سے پہچانی جاتی تھیں۔ پہلی بار 1966 میں وزیراعظم بنیں۔ ان کی سخت گیر اور مطلق العنان پالیسیوں نے انہیں اپنے تیسرے اقتدار سے نکال باہر کیا۔ اکیس ماہ انہوں نے ہنگامی حالت نافذ کئے رکھی۔چوتھی مرتبہ وہ پھر منتخب ہوگئیں لیکن سکھوں سے مخاصمت کا یہ نتیجہ نکلا کہانہی کے دو محافظوں نے 31 اکتوبر1984 کو اندرا گاندھی کی زندگی کا چراغ گل کردیا۔ ان کی موت سے ان کے بیٹے راجیو گاندھی اقتدار کی راہ پر آئے۔ اندراگاندھی کے سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل نے بھارت میں سکھوں کے خلاف فسادات کی آگ بھڑکادی اور قتل وغارت کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 19 نومبر1917ء کو الہ آباد میں پیدا ہونے والی اندرا گاندھی کی کئی کامیابیاں بیان کی جاتی

ہیں۔ زرعی اصلاحات کی بناء پر انہیں عوام میں بے حد پذیرائی ملی جس کی بدولت بھارت زرعی پیداوار میں خودکفالت کی راہ پر گامزن ہوا۔ 1971ء کی جنگ اور بنگلہ دیش کی تخلیق کی سازش کا کریڈٹ بھی انہیں دیاجاتا ہے۔جواہر لعل نہرو کو مہاتما گاندھی کی قربت اور زیراثر ہونے کی بناء پر انڈین نیشنل کانگریس میں بھرپور اثرونفوذ حاصل رہا۔ تقسیم برصغیر کی تحریک کی بنائپر اس کی زندگی کے کئی برس جیل میں گزرے جس کی وجہ سے اندرا گاندھی کا بچپن تنہاء گزرا۔ اندرا گاندھی نے سوئس بورڈنگ سکول میں بھی چند سال تک رہیں، بعدازاں وہ آکسفورڈ کے سومرولی میں تاریخ کی طالب علم رہیں۔ خاندان کی مرضی کے برعکس اندرا گاندھی نے 1942ء میں فیروز گاندھی سے شادی کی جو پارسی وکیل تھا جس سے اس کے دو بیٹے راجیو گاندھی اور سنجے گاندھی ہوئے۔1947ء میں تقسیم کے بعد جب جواہر لعل نہرو وزیراعظم بنے تو اندرا گاندھی دہلی میں ان کی مدد کے لئے آگئیںاور ملک کے اندر اور باہر اپنے والد کے ہمرکاب رہیں۔1955ء میں انہیں کانگریس کی ممتاز اکیس رکنی ورکنگ کمیٹی کے لئے منتخب کرلیاگیا۔ چار سال بعد انہیں کمیٹی کا صدر بنادیا گیا۔ 1964ء میں نہرو کی وفات کے بعد لعل بہادر شاستری وزیراعظم بنے تو اندرا گاندھی کو وزیراطلاعات ونشریات کا قلمدان سونپ دیاگیا۔ دوسال بعد ہی شاستری کے موت کی آغوش میں چلے جانے پر کانگرنس کے رہنماؤں نے اندراگاندھی کو وزیراعظم بنادیا۔ وزیراعظم اندراگاندھی پر جلد ہی عوامی مقبولیت اور پذیرائی ٹوٹ کر برسنے لگی۔ بہار حکومت کے وزیر ونود نارائن نے ایک موقع پر پریانکا پر طنز کیاتھا کہ ’’ووٹ خوبصورت چہروں کی بنیاد پر حاصل نہیں کئے جاسکتے۔ پریانکا رابرٹ واڈرا کی اہلیہ ہیں جو زمین گھوٹالے اور بدعنوانی کے جرائم میں ملوث ہیں۔ پریانکا بیشک خوبصورت ہیں مگر سیاست میں ان کا کوئی کردار نہیں رہا۔‘‘ بہاور کے نائب وزیراعلی سوشیل مودی کا تبصرہ تھا کہ ’’یہ فیصلہ یوپی میں ایس پی، بی ایس پی کو دھمکانے کے لئے کانگریس نے کیا ہے کیونکہ انہوں نے کانگریس پارٹی کو اتحاد سے علیحدہ کررکھا ہے۔‘‘22 کروڑ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں راہول اور پریانکا کے لئے سیاسی کامیابی آسان نہیں۔ بھارتی عام انتخابات میں بی جے پی نے یہاں سے 80 میں سے 73 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ بی جے پی کے صدر امیت شا کا حال میں بیان تھا کہ اس سال ان کی جماعت یہاں سے 74 نشستیں جیتے گی۔پریانکا نے بھی اپنی دادی کی طرح اپنی والدہ اور بھائی کا سیاست میں ہاتھ تو بٹایا لیکن کبھی کوئی عہدہ نہیں لیاتھا لیکن اب وہ مرکزی سیاسی دھارے میں آچکی ہیں۔ پریانکا کو پرامید ہیں کہ وہ ان کے بھائی ایک نئی طرز کی سیاست شروع کریں گے۔ لکھنؤ میں پریانکا نے تقریر نہیں کی اگرچہ اس کے حامیوں کے علاوہ مخالفین کو بھی انتظار تھا۔ تجزیہ نگاروں کا اس پر تبصرہ تھا کہ اگر وہ تقریر کرتی تو اس کے بھائی کی تقریر دب جاتی۔ پریانکا کے سیاست میں قدم رنجہ کرتے ہی اس کے شوہر کی بدعنوانی کا شور پھر سے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ مالی جرائم کے خلاف ادارے نے رابرٹ واڈرا سے سوال جواب کئے ہیں۔ اس کے شوہر پر بیرون ملک جائیدادوں کا بھوت بھی منڈلارہا ہے جس کے بارے میں الزام ہے کہ اس نے ظاہر نہیں کیں۔ پریانکا کی مقبولیت کا اندازہ تیزی سے بڑھتے اس رجحان سے لگایاجارہا ہے کہ جیسے ہی اس کی ٹویٹر پر آمد ہوئی تواسی روز کوئی ایک

ٹویٹ کئے بغیر ہی 78 ہزار لوگوں نے اس کو فالو کرنا شروع کردیا۔ 2009ء میں اترپردیش سے کانگریس نے اکیس نشستیں حاصل کی تھیں اور 2014ء میں صرف دو پر کامیابی حاصل کرسکی۔ اب دیکھتے ہیں کہ پریانکا کا جادو کتنا سر چڑھ کر بولتا ہے اور ٹویٹر پر اس کو فالو کرنے کے رجحان کو دیکھ کر کی جانے والی پیشگوئیاں اپنی جگہ لیکن کیا وہ اس عوامی حمایت کو ووٹ کی طاقت میں بدل پائیں گی؟ یہی وہ اصل سوال ہے جو ایک جنونی اور سیکولر بھارت کا فیصلہ کرے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کانگریس کو سکھوں کے خلاف کارروائیوں، گولڈن ٹیمپل اور پھر سکھ محافظوں کے ہاتھوں اندرا گاندھی کے قتل کا خمیازہ بھگتنا پڑا، آج کانگریسی وزیر نوجوت سنگھ سدھو کے ذریعے کرتارپور راہداری کو جو سیاسی سکوپ ملا ہے، وہ کس حدتک کانگریس کی سیاسی کامیابی میں اثر ڈالے گا؟ پریانیکا کے سندر روپ میں پیار محبت کی دیوی آئی تو برصغیر کے ڈیڑھ ارب انسانوں کی تقدیر بدل جائے گی اگر پریانیکا نے بھی ووٹ بنک کی سیاست اپنائی تو کالی ماتا غضب ڈھائے گی۔(تحریر: محمد اسلم خان)

FOLLOW US