تمام خواتین سعودی عرب سے فرار ہونے والی ہیں ایک ایسا دعویٰ جس نے پوری مسلم دنیا میں کھلبلی مچا دی
ٹورانٹو (آئی این پی ) سعودی عرب سے فرار ہونے والی لڑکی نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کی کہانی سعودی عرب میں دیگر آزاد خیال خواتین کو بھی ملک سے فرار ہونے کے لیے متاثر کرے گی، سعودی عرب میں خواتین کے استحصال روکنے سے متعلق نظام موجود نہیں،ا خاندان مجھ سے کیسے لاتعلقی کا اعلان کر سکتا ہے؟ میں نے تو صرف آزاد رہنے کی
خواہش کا اظہار کیا تھا، تاہم ان کے اس فیصلے سے مجھے بہت دکھ ہو ۔ کینیڈا میں پناہ حاصل کرنے والی سعودی لڑکی رھف محمد القنون نے آسٹریلوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک سے فرار ہونا بین الاقوامی توجہ حاصل کرگیا جس کی وجہ سے ایک تبدیلی آئے گی۔رھف محمد القنون نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ خواتین کی ایک بڑی تعداد سعودی انتظامیہ سے بھاگ رہی ہے، چونکہ وہاں خواتین کے استحصال روکنے سے متعلق نظام موجود نہیں ہے اس لیے ان استحصال میں اضافہ بھی ہورہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ میرا خیال ہے کہ بڑی تعداد میں خواتین وہاں سے بھاگ جائیں گی، تاہم امید ہے کہ میری کہانی ان خواتین کو متاثر کرے گی اور وہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی آزادی حاصل کریں گی۔اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ مجھے امید ہے کہ میری کہانی سعودی عرب میں قانون کی تبدیلی کا ذریعہ بنے گی کیونکہ اس قانون کی حقیقت پہلے ہی دنیا کے سامنے ظاہر ہوچکی ہے۔کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں جب انہوں نے کینیڈین وزیرخارجہ کرسٹیہ فری لینڈ سے ملاقات کی تو اس وقت رھف محمد القنون کا کہنا تھا کہ مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ میں دوبارہ پیدا ہوگئی ہوں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ بہت اچھا ہے، یہاں پر بہت پیار اور عزت ہے، یہاں ایک وزیر نے میرا استقبال کیا اور یقین دلایا کہ میں یہاں بالکل محفوظ ہوں اور یہاں مجھے تمام حقوق حاصل ہیں۔اپنے انٹرویو کے دوران رھف محمد القنون کا کہنا تھا کہ اسے یہ خبر سن کر بہت دکھ ہوا کہ میرے خاندان نے ایک بیان جاری کیا ہے اور اس میں مجھ سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔اس نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرا خاندان مجھ سے کیسے لاتعلقی کا اعلان کر سکتا ہے؟ میں نے تو صرف آزاد رہنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، تاہم ان کے اس فیصلے سے مجھے بہت دکھ ہوا۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے اپنا ملک کیوں چھوڑا تو اس کا کہنا تھا کہ میں ظلم اور جبر سے آزاد ہونا چاہتی تھی، مجھے وہاں اپنی مرضی کا کام کرنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی میں اس جگہ پر ایسے شخص سے شادی تک نہیں کرسکتی جس سے میں چاہتی ہوں۔