Sunday November 10, 2024

ترکی میں صدارتی الیکشن نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہو گیا رجب طیب اردگان کی پوزیشن کیا ہے ، حیران کن رپورٹ

استنبول (مانیٹرنگ ڈیسک)ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق موجودہ صدر رجب طیب اردوغان 45 فیصد ووٹنگ کے گنتی پوری ہونے کے بعد صدارتی انتخاب میں اپنے حریفوں سے آگے ہیں۔ طیب اردوغان کو 57 فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ ان کے قریبی حریف محرم انسے کو 28 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اس انتخاب میں صدر رجب طیب اردوغان کو دوسری

مرتبہپانچ سال کے لیے صدر بننے یا نہ بننے کا فیصلہ ہو گا۔ صدارتی انتخابات کے علاوہ ترکی میں پارلیمانی انتخابات بھی ہوئے۔سرکاری میڈیا کے مطابق ابھی تک گنے گئے 27 فیصد ووٹوں میں صدر کی اے کے پارٹی 48فیصد ووٹوں سے آگے ہے، جبکہ اہم حزبِ اختلاف کی پارٹی سی پی ایچ کے پاس 18 فیصد ووٹ ہیں۔ سرکاری براڈکاسٹر کے مطابق ووٹنگ کا تناسب 87 فیصد رہا ہے۔ اتوار کی صبح صدر اردوغان نے اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد دعویٰ کیا تھا کہ اس مرتبہ ووٹروں کا ٹرن آؤٹ زیادہ رہا ہے۔ پہلے نتائج آج ہی آنا شروع ہو جائیں گے۔ انھوں نے استنبول میں کہا کہ ’اس الیکشن کے ساتھ ترکی ایک جمہوری انقلاب سے گذر رہا ہے۔‘ صدر اردوغان چاہتے ہیں کہ انھیں 50 فیصد سے زیادہ ووٹ ملیں تاکہ ووٹنگ دوسرے راؤنڈ میں نہ جائے۔ صدراتی اور پارلیمانی ووٹنگ کا آغاز مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے شروع ہوا۔اگر صدر اردوغان اس ووٹنگ میں کامیاب ہوتے ہیں تو انھیں وہ نئے اختیارات حاصل ہو جا ئیں گے جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے جمہوریت کمزور ہوگی۔ لیکن سینٹر لیفٹ رجحان رکھنے والے ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے امیدوار محرم انسے سے ان کا مقابلہ سخت ہے۔خیال رہے کہ ترکی میں جولائی سنہ 2016 میں ناکام تختہ الٹنے کے واقعے کے بعد سے ایمرجنسی نافذ ہے۔یہ انتخابات نومبر سنہ 2019 میں ہونے تھے لیکن صدر اردوغان نے انھیں قبل از وقت کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

صدر اردوغان اور ان کے حریف مسٹر انسے دونوں نے ہفتہ کو اپنی انتخابی مہم کے آخری دن بڑی ریلیاں کیں اور دونوں نے ایک دوسرے کو ترکی پر حکومت کرنے کا نااہل قرار دیا۔مسٹر انسے کی شعلہ فشاں انتخابی مہم نے ترکی کی پست حوصلہ حزب اختلاف میں جان پھونک دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اردوغان کا آمرانہ دور حکومت اپنے خاتمے پر ہے۔انھوں نے استنبول میں تقریبا دس لاکھ کے مجمعے سے کہا کہ ‘اگر اردوغان کی فتح ہوتی ہے تو آپ کے فون کی نگرانی جاری رہے گی۔۔۔ خوف کی حکومت برقرار رہے گی۔ اور اگر انسے کی جیت ہوتی ہے تو عدالتیں آزاد ہوں گی۔’ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ کامیاب ہوتے ہیں تو ترکی میں عائد ایمرجنسی کو 48 گھنٹے کے اندر ہٹا لیا جائے گا۔ایمرجنسی کی وجہ سے حکومت پارلیمان کو نظر انداز کرتی ہے۔دوسری جانب اپنی ریلی میں صدر اردوغان نے اپنے حامیوں سے ایک متشدد استعارے کا استعمال کرتے ہوئے پوچھا کہ ‘کیا کل ہم انھیں عثمانی تھپڑ لگائیں گے؟’خیال رہے کہ رجب طیب اردوغان سنہ 2014 میں صدر بننے سے قبل 11 سال تک ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ انھوں نے سابق استاد اور 16 سال سے رکن پارلیمان رہنے والے مسٹر انسے کے بارے میں کہا کہ ان میں قیادت کا ہنر نہیں ہے۔انھوں نے کہا: ‘طبیعیات کا استاد ہونا الگ بات ہے اور ملک چلانا دوسری بات ہے۔صدر بننے کے لیے تجربہ کار ہونا ضروری ہے۔’انھوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے وہ مزید اہم بنیادی دھانچے کے پروجیکٹس لانے والے ہیں۔ بی بی سی ترکی کے مطالق ترکی کی جدید تاریخ میں یہ ملک کبھی

اتنا منقسم نہیں رہا اور نہ ہی رجب طیب اردوغان کو اس سے قبل اتنے سخت مقابلے کا سامنا رہا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ جدید ترکی کے بانی کمال عطا ترک کے بعد ترکی کے سب سے طاقتور رہنما کو اگر کامیابی ملتی ہے تو وہ مزید طاقتور ہو جائیں گے اور وہ وزیر اعظم کی پوسٹ کو ختم کرکے پارلیمان کو کمزور کریں گے۔اتوار کو ڈالے جانے والے ووٹ میں ایک ووٹ صدر کے لیے جبکہ دوسرا ووٹ رکن پارلیمان کے لیے تھا۔ صدر کے عہدے کے لیے چھ امیدوار میدان میں ہیں اور جو ان میں سے تنہا 50 فیصد ووٹ حاصل کرے گا وہ منتخب قرار پائے گا۔ تا ہم اگر کسی کو بھی واضح 50 فیصد ووٹ نہیں ملتا ہے تو پھر آٹھ جولائی کو دوسرے دور کا انتخاب اس مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والوں کے درمیان ہوگا۔ صدر اردوغان واضح طور پر جیت کی امید رکھتے ہیں لیکن اگر دوسرے دور کا انتخاب ہوتا ہے تو پھر ان کی شکست بھی ہو سکتی ہے یا پھر جیت کا فرق کم ہو جائے گا۔پارلیمان میں صدر کی اے کے پارٹی کو سخت چیلنجز کا سامنا ہے اور 600 نشستوں والی اس پارلیمان میں اکثریت حاصل کرنا ایک مشکل امر ہے۔ ک پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں ووٹ دینے کے لیے لوگ جگہ جگہ قطار میں نظر آئے۔ سخت سکیورٹی کے درمیان ووٹنگ کا آغاز ہوا ہے۔ صرف استنبول میں 38 ہزار سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں۔

FOLLOW US