Friday May 17, 2024

سعودیہ میں پاکستانی ملازمین پر تشدد کی ویڈیو وائرل، سعودی پولیس کا ردِ عمل آگیا

ریاض: سعودی عرب اور پاکستان میں گزشتہ کئی روز سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر بہت وائرل ہو رہی ہے جس میں کچھ پاکستانی ملازمین کو ان کا سعودی مالک اور ایک غیر ملکی مینجر تشد د کا نشانہ بنا رہا ہے اور بڑی بے چارگی سے ان کا یہ ناروا سلوک سہہ رہے ہیں۔ اس ویڈیو کے سامنے آنے پر پاکستانی سوشل میڈیا صارفین بھی بھڑک اُٹھے تھے اور یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ سعودی مالکان پاکستانیوں کے ساتھ بہت بُرا سلوک کرتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ یہ ویڈیو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے معاون خصوصی برائے اوور سیز پاکستانیز سید زُلفی بخاری کے نوٹس میں بھی آئی تھی۔ جسے انہوں نے اپنے ٹویٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا تھا ”پاکستانی تارکین کے ساتھ یہ سلوک ناقابل برداشت ہے۔ اگر کوئی اس ویڈیو کے حوالے سے تفصیلات فراہم کرتا ہے تو ذمہ داران افراد کے خلاف کارروائی کے لیے حکام سے رابطہ کیا جائے گا۔ “

اس سارے معاملے پر ریاض پولیس کا موقف سامنے آیا ہے۔ ریاض ریجن پولیس کے میڈیا ترجمان میجر خالد الکریدیس کا کہنا ہے غیر ملکی ملازمین کی مار پیٹ سے متعلق یہ ویڈیو سچی ہے، مگر یہ اب کی نہیں ہے، بلکہ 2015 ء کا واقعہ ہے۔ جس میں ایک سعودی شہری اور ایک تارکِ وطن سینیئر عہدے دار کئی غیر ملکی ملازمین کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ تارکین سے یہ شرمناک سلوک کرنے پر سعودی شہری اور اس کے سینیئر عہدے دار کے خلاف فوری طور پر کارروائی کر کے انہیں سزا دی گئی تھی۔ لوگ اس ویڈیو کے حوالے سے پھیلائی گئی افواہوں پر یقین نہ کریں۔ جب اس طرح کی پرانی ویڈیوز دوبارہ پوسٹ کی جاتی ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی تازہ ترین واقعہ ہے۔ جس سے لوگوں کی رائے عامہ گمراہ ہوتی ہے۔ سعودی قانون کے مطابق کوئی مقامی شخص ہو یا غیر ملکی، اگر وہ کسی کو تشدد یا بدسلوکی کا نشانہ بناتا ہے ، اس سے بدکلامی کرتا ہے تو اس کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ سعودی قانون سب کے لیے برابر ہیں۔ لوگ اس معاملے پر مکمل تسلی رکھیں۔ واضح رہے کہ سید زلفی بخاری کی اس ویڈیو کے جواب میں ایک سوشل میڈیا صارف نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستانی ملازمین کو تھپڑ مارنے والے غیر ملکی مینجر کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے جس کا نام فاروق بنگالی بتایا گیا ہے۔ جدہ میں واقع پاکستانی قونصل خانے اور ریاض کے پاکستانی سفارت خانے بھی تصدیق کی ہے کہ یہ ویڈیو چھ سال پُرانی ہے۔ ذمہ داروں کے خلاف سعودی حکومت نے فوری طور پر کارروائی کر کے انہیں سزا دی تھی۔

FOLLOW US