اسلام آباد (ویب ڈیسک) وزارت خارجہ کی دعوت پر افغان طالبان کا وفد آج اسلام آباد پہنچے گا، وفد ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میںآ ئے گا، وفد افغان دھڑوں کے درمیان مفاہمتی عمل کے حوالے سے پاکستانی قیادت کو آگاہ کرے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزارت خارجہ کی دعوت پع افغان طالبان وفد آج دورہ پاکستان پر آئے گا۔افغان طالبان کا وفد آج رات دوحہ سے پاکستان پہنچے گا۔ افغان طالبان کا وفد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کی دعوت پر پاکستان آرہا ہے۔وفد کے ساتھ افغان امن عمل میں پیشرفت سے متعلق بات ہوگی۔ ملا عبدالغنی برادر کی قیادت میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کا وفد اسلام آباد پہنچے گا۔ بتایا گیا ہے کہ وفد افغان دھڑوں کے درمیان مفاہمتی عمل کے حوالے سے پاکستانی قیادت دے بات چیت کرے گا۔
اسی طرح نیوز ایجنسی کے مطابق افغانستان نے یہ کہتے ہوئے کہ جب تک طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کریں گے، تب تک مزید طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کیا جائے گا۔
جس کی وجہ سے اس ہفتے شروع ہونے والے امن مذاکرات ایک بار پھر ٹل سکتے ہیں۔ افغان حکومت نے کہا کہ وہ طالبان کے باقی 320 قیدیوں کو رہا نہیں کرے گی۔ اس کی وجہ سے اگلے چند دنوں میں ہونے والے مجوزہ امن مذاکرات ایک بار پھر ٹل سکتے ہیں۔ فرانس اور آسٹریلیا نے طالبان قیدیوں کو رہا نہیں کرنے کے افغانستان کے موقف کی تائید کی ہے۔گزشتہ ہفتے ہی روایتی جرگے میں فریقین کے درمیان آخری 400 قیدیوں کی رہائی پر اتفاق رائے ہوگیا تھا۔ ان میں بعض وہ قیدی بھی شامل ہیں جنہوں نے افغانوں اور غیر ملکیوں پر پرتشدد حملے کیے تھے۔جرگے کے انعقاد کے بعد سے افغانستان انتظامیہ 80 قیدیوں کو رہا کرچکی ہے لیکن اب اس نے رہائی کے پروگرام کو روک دیا ہے۔ یہ 400 قیدی ان 5000 طالبان قیدیوں میں سے آخری تھے جنہیں طالبان جنگجووں کے قید میں موجود 1000افغان سکیورٹی اہلکاروں کی رہائی کے بدلے میں رہا کیا جانا ہے۔
قیدیوں کا یہ تبادلہ امریکا کی ثالثی میں اس سال کے اوائل میں ہوئے ایک معاہدے کے تحت کیا جارہا ہے۔افغانستان نیشنل سکیورٹی کاونسل کے ایک افسر نے خبر رساں ایجنسی بتایا کہ مزید کسی بھی قیدی کو رہا کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ترجمان صدیق صدیقی کا کہنا تھا کہ دو ملکوں نے 400 قیدیوں میں سے کوئی چھ یا سات قیدیوں کے بارے میں اپنی تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا تھا۔انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ افغان حکومت ان قیدیوں کے حوالے سے تشویش کو دور کرنے کے سلسلے میں اپنے پارٹنرس کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔ صدیقی نے گوکہ ان دو ملکوں کا نام نہیں بتایا جنہوں نے تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا ہے تاہم حالیہ دنوں میں فرانس اور آسٹریلیا نے ان عسکریت پسندوں کو رہا کرنے پر اعتراضات کیے ہیں جو فرانس اور آسٹریلیائی شہریوں اور فوجیوں کے قتل کے قصوروار ہیں۔ صدیقی نے بتایا کہ طالبان قیدیوں کی رہائی طالبان کی طرف سے بعض مسائل کی وجہ سے روکی گئی ہے۔ ہم انہیں رہا کردیں گے۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن یہ اقدام دو طرفہ ہونا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ طالبان اپنے قبضے میں موجود افغان شہریوں کو رہا نہیں کررہے ہیں۔ لیکن طالبان نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ایک دوسرے کے قیدیو ں کو رہا نہیں کرنے کے الزامات نئے نہیں ہیں۔ دونوں فریق قیدیوں کے تبادلے اور امن مذاکرات پر رضامند ی کے بعد سے ہی ایک دوسرے پر اس طرح کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔اس سال کے اوائل میں معاہدے پر دستخط کے بعد طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکی اور نیٹو کی افواج پر حملے نہیں کریں گے تاہم افغان سکیورٹی فورسز پر ان کے حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔