سرینگر (ویب ڈیسک) مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے بھارتی منصوبے کے تحت ہندوتوا دہشت گردوں کی ایک تربیت یافتہ فورس کے ذریعے بڑے پیمانے پر مسلم کش منصوبے پر کام جاری ہے۔ اس سلسلے میں مقبوضہ علاقے کے ذرائع نے کشمیرمیڈیاسروس کوبتایا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران 30ہزار سے زائد ہندوتوا تربیت یافتہ دہشت گرد کشمیر پہنچے ہیں جبکہ مزید دہشت گرد سڑک اور ہوا ئی راستے سے کشمیرآرہے ہیں۔
یہ سب کچھ اس وقت ہو رہا ہے جب بھارتی فوج کی طرف سے گزشتہ سال 05 اگست کے بعدسے کشمیری مسلمانوں کے خلاف کئے گئے کریک ڈاؤن کو ایک سال مکمل ہو رہا ہے اور کورونا وائرس کی آڑمیں اس میں مزید سختی آئی ہے۔بھارتی فوج اور نیم فوجی دستوں نے سیکڑوں قصبوں اور دیہاتوں کو سیل کردیا ہے اور لاکھوں کشمیریوں کو گھروں کے اندر محصورکردیا ہے اوروسیع پیمانے پران ظالمانہ اقدامات کو وبا سے نمٹنے کے لئے احتیاطی تدابیر قرار دیا جارہا ہے۔ ذرائع نے کے ایم ایس کو بتایا ہے کہ عوامی نقل وحرکت کے خلاف اس سخت کریک ڈاؤن کے دوران بھارتی فوج روزانہ کی بنیاد پرہندوتوا سے وابستہ ہزاروں دہشت گردوں کو بسوں اور ہوائی جہازوں کے ذریعے کشمیر منتقل کررہی ہے۔ یہ لوگ آر ایس ایس ، وی ایچ پی ، شیو سینا ، ہندو واہنی اور پنن کشمیر جیسے مختلف ہندو دہشتگرد گروہوں سے وابستہ ہیں اورانہیں تلواروں اور آتشیں اسلحہ کے استعمال کے ساتھ ساتھ آتش زنی اور لنچنگ کی تربیت دی گئی ہے جس کا مظاہرہ رواں سال فروری میںنئی دہلی میں مسلم کش فسادات کے دوران کیاگیا تھا۔
بھارت کے دارالحکومت میں ہندوتوا کے دہشت گرد گروہوں نے پولیس کے ساتھ مل کر متعدد مسلمانوں کو قتل اور سیکڑوں کو معذوربنایاتھا اور مساجد اور درگاہوں سمیت مسلمانوں کی املاک کو نذر آتش کردیاتھا جبکہ انتظامیہ نے متعصبانہ رویے کا مظاہرہ کرکے ان ہندو دہشت گردوں کا ساتھ دیا تھا۔کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ بھارت کی ہندوتوا سے متاثر ہ حکومت مقامی مسلم آبادی کے خلاف فسادات کی منصوبہ بندی کر رہی ہے تاکہ بڑے پیمانے پرہندو آبادی کو کشمیر میں داخلے کے لیے راہ ہموار کی جائے ۔ اس سے مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا دیرینہ بھارتی منصوبہ پورا ہوجائے گا۔ایک مقامی پولیس افسر کے مطابق ہندوتوا دہشت گردوں کے بڑے پیمانے پر داخلے کی براہ راست نگرانی بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کررہے ہیں۔ پولیس عہدیدار کے مطابق خوفناک بات یہ ہے کہ ان ہندوتوا دہشتگردوں کو بھارتی فوج کی چھاؤنیوں اور کیمپوں کے اندر بسایا جارہا ہے جوپوری وادی کشمیر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ روزانہ تربیت حاصل کررہے ہیں اور فوجی اہلکار انہیں مقامی صورتحال کے بارے میں آگاہ کررہے ہیں۔ایک صحافی نے بھی ہندوتوا دہشت گردوں کے بڑے پیمانے پر داخلے کی خبروں کی تصدیق کی ہے جس سے مقامی مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت ان دہشتگرد ملیشیاؤں کو امرناتھ کے روایتی راستے میں آنے والے مختلف دیہاتوں کو زبردستی خالی کرانے کے لیے استعمال کر سکتی ہے جنہیںپہلے ہی ہتھیاروں سے لیس کیا جاچکا ہے۔
سری نگر میں ایک اور افواہ یہ بھی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسیاں امرناتھ یاتریوں پر دہشت گردی کا جھوٹا آپریشن کرسکتی ہیں کیونکہ ہندوتوا کے نوجوانوں کو فوجی کیمپوں میں تربیت دی جارہی ہے کہ بدلے میں کس طرح کشمیریوں سے بڑے پیمانے پر انتقام لینا ہے۔ ایک کشمیری وسیم حسن دہلی سے سرینگر جانے کے لئے فضائی سفر کر رہے تھے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر اطلاع دی کہ انہوں نے پرواز میں غیرمعمولی طور پر بہت بڑی تعداد میں غیرکشمیریوں کو دیکھا جنہوں نے کمپیوٹر کورس میں شرکت کے لئے کشمیر آنے کا دعویٰ کیا ۔ حسن نے انکشاف کیا کہ تمام مسافروں میں سے صرف چار کشمیری تھے۔ انہوںنے کہاکہ تجسس کی وجہ سے میں نے ان میں سے کچھ لوگوں سے پوچھا کہ اس افراتفری کی صورتحال میں آپ کے دورے کا مقصد کیا ہے اور ان میں سے بیشتر نے جواب دیا کہ ہم یہاں کمپیوٹر کورس کے لئے آئے ہیں۔ تمام تعلیمی ادارے بند ہیں۔ میں حیرت میں ہوں کہ یہ کورس کون کراتا ہے۔