Saturday May 18, 2024

واحد ملک جہاں کام کرنے والے تمام پاکستانی پائلٹس کلیئر قرار دے دیے گئے

اسلام آباد (ویب ڈیسک) حکومت نے کہا ہے کہ ویتنامی ایئر لائنز کیلئے کام کرنے والے تمام پاکستانی پائلٹوں کے پاس تصدیق شدہ لائسنس ہیں اور کوئی بھی پائلٹ کسی فضائی حادثے یا سیفٹی کے لیے خطرہ نہیں ہے۔تفصیلات کے مطابق ویتنام نے گزشتہ ماہ مقامی ایئر لائنز کے لیے کام کرنے والے تمام پاکستانی پائلٹوں کو غیر فعال کردیا تھا۔ غیر ملکی میڈیا حکومت کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ویتنام میں پاکستانی سفارتخانے نے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے زیر انتظام تمام لائسنس تصدیق شدہ اور مستند ہیں جس میں کوئی جعلی لائسنس نہیں ہے۔ویتنام کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے مطابق ویتنام نے تمام 27 پاکستانی پائلٹوں کو لائسنس دیا تھا اور ان میں سے 12 ابھی بھی فعال ہیں۔

ویتنام کے مطابق دیگر 15 پائلٹوں کے معاہدوں کی میعاد ختم ہوگئی تھی یا وہ کورونا وائرس کی وجہ سے غیر فعال تھے۔خیال رہے کہ پائلٹس کے مشکوک یا جعلی لائسنسز کے معاملے کا آغاز 24 جون کو اس وقت ہوا جب قومی اسمبلی میں کراچی مسافر طیارہ حادثے کی تحقیقاتی رپورٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ 860 پائلٹس میں سے 262 ایسے پائے گئے جن کی جگہ کسی اور نے امتحان دیا تھا جس کے بعد پاکستان نے 26 جون کو امتحان میں مبینہ طور پر جعل سازی پر پائلٹس کے لائسنسز کو ‘مشکوک’ قرار دیتے ہوئے انہیں گراؤنڈ کردیا تھا۔ غلام سرورخان نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جن پائلٹس پر سوالات اٹھائے گئے ہیں وہ 262 ہیں، پی آئی اے میں 141، ایئربلیو کے 9، 10 سرین، سابق شاہین کے 17 اور دیگر 85 ہیں جس کے بعد پی آئی اے کی انتظامیہ نے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنی) کا فیصلہ کیا تھا۔29 جون کو ویتنام کی ایوی ایشن اتھارٹی نے عالمی ریگولیٹرز کی جانب سے پائلٹس کے ’مشکوک لائسنس‘ رکھنے کی تشویش پر مقامی ایئرلائنز کے لیے تمام پاکستانی پائلٹس کو گراؤنڈ کردیا تھا۔

اگلے روزیورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کا اجازت نامہ 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس پر 3 جولائی سے اطلاق ہوا۔اسی روز اقوام متحدہ کے ڈپارٹمنٹ آف سیفٹی اینڈ سیکیورٹی (یو این ڈی ایس ایس) نے پاکستانی ایئرلائن کو اپنی ‘تجویز کردہ فہرست سے ہٹا دیا تھا۔ جس کے بعد یکم جولائی کو برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹی نے اپنے 3 ایئرپورٹس سے پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگانے کا اعلان کیا تھا جبکہ متحدہ عرب امارت نے بھی سول ایوی ایشن اتھارٹی سے مختلف فضائی کمپنیوں میں کام کرنے والے پاکستانی پائلٹس اور انجینئرز کے کوائف کی تصدیق کی درخواست کی تھی،اس کے بعد 3 جولائی کو ملائشیا کے ایوی ایشن ریگولیٹر نے پاکستانی لائسنس رکھنے والے اور مقامی ایئر لائنز میں ملازمت کرنے والے پائلٹس کو عارضی طور پر معطل کردیا تھا جس کے بعد 4 جولائی کو وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے کہا تھا کہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد مزید 30 ’مشتبہ لائسنس’ کے حامل پائلٹس کو اظہار وجوہ کے نوٹسز بھیجے جاچکے ہیں۔ 7 جولائی کو یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے 32 رکن ممالک کو پاکستان میں جاری کردہ پائلٹ لائسنسز سے متعلق مبینہ فراڈ’ کے حوالے سے خط لکھا اور ان پائلٹس کو فلائٹ آپریشن سے روکنے کی سفارش کی تھی اسی روز سول ایوی ایشن اتھارٹی نے ‘مشکوک’ لائسنسز سے متعلق انکوائریاں مکمل ہونے کے بعد پی آئی اے کے 34 پائلٹس کے کمرشل فلائنگ لائسنسز معطل کردئیے تھے۔ بعدازاں 9 جولائی کو امریکا نے بھی پاکستانیوں کی واپسی کے لیے قومی ایئر لائن (پی آئی ای) کی خصوصی پروازوں کے اجازت نامے کو منسوخ کردیا تھا۔10 جولائی کو ایوی ایشن ڈویڑن نے مختلف ممالک کی ایئرلائنز میں کام کرنے والے 95 فیصد پائلٹس کے لائسنز کلیئر کردیے تھے جبکہ باقی کی تصدیق کا عمل آئندہ ہفتے مکمل کرنے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔

FOLLOW US