سکم (ویب ڈیسک) چائنہ نے لداخ میں اسی مربع کلومیٹر قبضہ کیا، مہینہ گزرنے کے باوجود ایک بھی بھارتی میڈیا چینل کیوں نہیں پہنچا ؟ نجی ٹی وی رپورٹ کے مطابق بھارتی شہری اور دفائی تجزیہ کار اشوک سوائن نے اپنی ایک ٹویٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ چین کو ہندوستان کے علاقے کا ایک بڑا حصہ لیتے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے – بھارت کے کسی بھی میڈیا ہاؤس نے وادی گالان یا لداخ میں کوئی رپورٹر کیوں نہیں بھیجا؟ واضح رہے کہ چین اور بھارت کے مابین سرحدی تصادم جو 5 مئی کو لداخ میں وادی گلوان اور اس کے بعد شمال مشرقی سکم کے علاقے نکولہ میں شروع ہوا تھا
اس کے تین دن بعد بھارت اور چین میں شدید تلخی آئی تھی چین نے لداخ میں بھارتی علاقے میں گھس کر بھارتی فوج کر گرفتار کر لیا تھا جنہیں بعد ازاں چھوڑ دیا گیا۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق چین اور بھارت کی فوج کے مابین 25 روز سے کشیدگی جاری ہے،دونوں ممالک نے سرحد کے قریب بھاری تعداد میں اسلحہ،جنگی گاڑیاں پہنچا دی ہیں ، فوجی اڈوں میں فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا ہے۔ قبل ازیں دو ہفتوں سے جاری بھارتی منتوں ترلوں کے بعد لداخ مدعے پر بالآخر چائنہ نے بات چیت پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ بھارت نے چین کے ساتھ اعلی سطح پر فوجی مذاکرات کی درخواست کی ہے کیونکہ دونوں ملکوں کے مابین آمنے سامنے لداخ تنازعے پر مذاکرات جاری ہیں، 6 جون کو ، چین اور بھارت کے لیفٹیننٹ جرنیل لداخ میں بھارت سرحدی مقام میں اجلاس کریں گے۔ چین اوربھارت کے درمیان سرحدی کشیدگی مسلسل بڑھتی جارہی ہے اور اطلاعات کے مطابق چین کے پانچ ہزارسے زائد فوجی بھارت میں گھس گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سی پیک کو امریکہ اور بھارت سے خطرہ چینی طیارے اور ہیلی کاپٹرز لداخ پہنچ گئے چین نے ماؤنٹ ایورسٹ پر فوجیں اتار دیں ،
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہےکہ گیلون ندی (لداخ) سمیت تین مختلف مقامات پر چینی فوج 4-5 کلومیٹر تک LAC سے آگے مورچہ بند ہونا شروع ہوگئی ہے۔ بصرف گلون ندی کے مقام پر چین نے 100 کے قریب ٹینٹ لگا دیئے ہیں لداخ میں چین نے بھارت کو ناکوں چنے چبوا دے، متعدد فوجی گرفتار، اکثر نے بھاگ کر جان بچائی ،اطلاعات کے مطابق لداخ اور سکم کی سرحد پر چینی فوج کی نقل و حرکت سے بھارت کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق چینی فوج زیر زمین بنکرز بنانے مصروف ہے جبکہ کچھ بھارتی فوجیوں کو گرفتارکرلیا ہے جبکہ بڑی تعداد میں بھارتی فوجیوں نے بھاک کرجان بچائی ہے۔
More than a month has passed in China taking a large part of Indian territory -Why has not a single media house from India sent a reporter to Galwan Valley or even Ladakh?
— Ashok Swain (@ashoswai) June 7, 2020