ان کھلاڑیوں کی مسلسل گرتی ہوئی پرفارمنس ورلڈ کپ سے پہلے اچھا شگون نہیں ہے
کیپ ٹائو ن/کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستانی ٹیم ایشیا کپ سے لے کر اب تک محدود اوورز کی کرکٹ میں ناکامیوں کا سامنا کر رہی ہے۔ایشیا کپ میں قومی ٹیم کو تین میچوں میں شکست ہوئی جبکہ نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز برابرہونے کے بعد اب جنوبی افریقہ کے ہاتھوں گرین شرٹس کوہار کی پشیمانی جھیلنی پڑی ہے۔قومی ٹیم کی کاکرردگی کا گرتا ہوا گراف اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اسے جلدی ہی ایک روزہ کرکٹ
کی رینکنگ میں چھٹی پوزیشن سے ہاتھ دھونے پڑ جائیں گے ۔ اس مجموعی کارکردگی کے ساتھ ساتھ اگر انفرادی کارکردگیوں پر بھی نظر ڈالی جائے تو یہ لگ رہا ہے کہ قومی کھلاڑیوںکی پرفامنس دیکھ کر لگ رہا ہے کہ بڑے پیمانے پر چھانٹی اور اکھاڑ پچھاڑ کی ضرورت ہے۔یہ وہی اکھاڑ پچھاڑ ہے جو اس وقت ناگزیر بن گئی تھی جب اکمل برادران ٹیم میں تھے۔ احمد شہزاد ٹیم کا حصہ تھے ۔محمد عرفان ٹیم میں کھیلتے رہے۔ٹیم کی کارکردگی صفر تھی اور آئے روز نظم و ضبط اور اخلاقیات سے تصادم رکھنے والا کوئی نہ کوئی شوشہ آئے روز چھوڑ دیا جاتا ۔اور ٹیم کی انتظامیہ کھلاڑیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے کھلاڑیوں کے ڈسپلن کے پیچھے ہی بھاگتی ہوئی دکھائی دیتی۔پھر عماد وسیم ، فخرزمان، بابراعظم، شاداب خان، عثمان شنواری اور رومان رئیس سمیت کچھ نئے چہرے ٹیم کا حصہ بنے ، اورپرانے کھلاڑیوں کی داداگیری اور لابنگ کا زوربھی ٹوٹا اور ایسے کھلاڑیوں سے بھی جان چھوٹ گئی۔تاہم اب ایسی
ردو بدل ایک بار پھر ناگزیر ہو گئی ہے۔کیونکہ قومی ٹیم کے کچھ کھلاڑی بالکل بھی پرفارمنس نہیں دے پا رہے۔محمد حفیظ اب چند ماہ کے مہمان ہیں۔ انھیں ورلڈ کپ تک رکھنا شاید ٹیم مینجمنٹ کی مجبوری بن گئی ہے۔ کیونکہ کرکٹ پاکستان پہلے ہی شاہد آفریدی، سعید اجمل، عبد الرزاق اورمحمد یوسف سمیت کئی کھلاڑیوں کو آخر ی موقع یا الوداعی سیریز نہ کھلانے کی پاداش میں کافی تنقید کا سامنا کر چکی ہے۔امید ہے محمد حفیظ اپنی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے ورلڈ کپ کے بعد رضا کارانہ طور پر کرکٹ چھوڑ دیں گے اور کسی نوجوان کو قومی ٹیم کی نمائندگی کا موقع دیں گے۔محمد عامر کی سوئنگ تو ختم ہوہی چکی ہے اب ان کی رفتار میں بھی دس سے بیس کلومیٹر فی گھنٹا کمی واقع ہو گئی ہے۔ حالیہ چند ماہ میں محمد عامر انتہائی مہنگے ثابت ہونے والے بالروں میں سے ایک ہیں، ان کے مہنگےہونےکی قیمت کرکٹ بورڈ کو بھی چکانی پڑ رہی ہے جو سینٹرل کنٹریکٹ اور میچ فیس کی مد میں عامر کو کروڑوں روپے ادا کر رہا ہے۔محمد عامر کو شاید ڈراپ کرکے طویل بریک دیے جانے کی ضرورت ہے۔شاداب خان نوجوان ہونے کی باوجود گروم نہیں کر پا رہے۔ ایک تو انھیں فٹنس کے مسائل سے ہی نجات نہیں مل رہی ۔پھر انھیں اگر چند بڑے شاٹس لگ جائیں تو ان کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں اور وہ اپنی لائن
اینڈ لینتھ ٹھیک نہیں کر پاتے، جس پر انھیں ہٹانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔سرفراز احمد بلے باز ی میں اپنا اعتماد ناقابل یقین حد تک کھو چکے ہیں۔ ان کی گیم کو دیکھ کر بالکل بھی نہیں لگ رہا کہ وہ بلا لے کر نیٹ میں جا رہے ہیں۔سرفراز حالیہ ناکامیوں سے دبائو میں بھی آچکے ہیں ۔اور فطری طور پرہونے والی تنقید کا ان کی کارکردگی پر شدید منفی اثر پڑرہا ہے۔سرفراز احمد کو بریک لینے کے ساتھ ساتھ کسی ماہر نفسیات کی خدمات حاصل کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ جسمانی فٹنس کے ساتھ ساتھ کرکٹ کےلئےمضبوط سوچ اور اعصاب کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔حسن علی نے انٹرنیشنل کیرئیر کا آغاز بڑے تباہ کن انداز سے کیا ۔محمد آصف پر پابندی کے طویل عرصے کے بعد پاکستان کو ایک ایسا بائولر ملا جو گیند کو صحیح جگہ ٹھپہ دینا جانتا تھا لیکن شاید وہ اس ٹھپے والی جگہ کو اب بھول گئے ہیں۔ حسن علی
وکٹیں حاصل کرنےکی صلاحیت کھونے کے ساتھ ساتھ رنز کو روک کر رکھنے کی بھی ایبلٹی نہیں دکھا پارہے۔جو واقعی ایک قابل تشویش بات ہے۔فہیم اشرف ایک آل رائونڈر ہونے کی شہرت کے ساتھ پاکستانی ٹیم میں آئے تھے ۔تاہم طویل عرصہ تک چانس ملنے کے باوجود کم از کم ان کی بیٹنگ کے توکوئی بھی سکلز ابھی تک نظر نہیں آئے۔ رہ گئی بائولنگ توقومی ٹیم میں اس وقت تین چار بائولرز اور دو سپنرز کی موجودگی میں ان کی بائولنگ کی ضرورت شاید ترجیحی بنیادو ں پر نہیں دیکھی جا سکےگی۔ سابق کپتان وسیم اکرم نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ فہیم اشرف کا مستقبل کیا ہوگا ۔یہ اب دیکھنا پڑے گا۔ان چھ کھلاڑیوں کا ورلڈ کپ سے صرف چند ماہ قبل پرفارم نہ کرپانا پاکستان کرکٹ بورڈ کےلئے ایک چیلنج اور شائقین کرکٹ کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔