Friday September 19, 2025

ورلڈکپ آرہا ہے، ہماری ٹیم کی سب سے بڑی پریشانی کیا ہے وہ مسئلہ جس پر کرکٹ بورڈ کو سب سے زیادہ توجہ دینی ہوگی

ورلڈکپ آرہا ہے، ہماری ٹیم کی سب سے بڑی پریشانی کیا ہے وہ مسئلہ جس پر کرکٹ بورڈ کو سب سے زیادہ توجہ دینی ہوگی

کیپ ٹائون /دبئی /لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) قومی کرکٹ ٹیم اس وقت دورہ جنوبی افریقہ کے دوران پانچ ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیل رہی ہے۔ ون ڈے سیریز کے بعد ٹی ٹوئنی سیریز ہو گی جس کے بعد پاکستانی ٹیم متحدہ عرب امارات اور اپنے ملکی گرائونڈز میں پی ایس ایل کھیلے گی۔ اس کے بعد آسٹریلوی ٹیم ایک روزہ میچوں کی سیریز کھیلنے کےلئے متحدہ عرب امارات آئے گی ۔رواں سال جون میں

کرکٹ کا عالمی میلہ بھی سجنے والا ہے جس کی میزبانی انگلینڈ کرے گا۔اس وقت دنیائے کرکٹ کی تمام ٹیمیں جس چیز پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیںوہ ان کا ورلڈ کپ کا سکواڈ ہے۔صاف ظاہر ہے ورلڈ کپ سکواڈ سے مراد یہ ہر گز نہیں ہے کہ خانہ پری کرتے ہوئے پندرہ نام فائنل کر لیے جائیں اور پھر مقررہ وقت پر انھیں انگلینڈ روانہ کر دیا جائے ۔اور پھر میگا ایونٹ کے بعد بیٹھ کر یہ سوچا جائے کہ کھلاڑیوں کے انتخاب میں کہاں کہاں غلطیاں ہوئیں۔ ہر ملک کی کوشش ہے کہ اپنی سب سے بہترین ٹیم کو ورلڈ کپ کھلایا جائے۔اس کےلیے کرکٹ بورڈز کو کچھ سخت فیصلے بھی کرنے پڑ رہے ہیں۔کئی ملکوں کے کوچز اور سلیکٹرز اس معاملے پر مکمل طور پر یکجا ہیں ۔وہ صرف سینئر یا صرف نوجوان نہیںبلکہ ایسے یونٹس تشکیل دینے میں مصروف ہیں جنھوںنے حالیہ عرصے میں مسلسل کرکٹ کھیلی ہے۔اور پرفارم کیا ہے۔ ایسے تمام کھلاڑی جو اچھی پرفارمنسز نہیں دے پا رہے ہیں ۔ وہ ورلڈ کپ کے مجوزہ سکواڈز کےلئے سلیکٹرز

کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں۔ ورلڈ کپ کے پیرائے میں بات کی جائے تو ایک روزہ کرکٹ میں اس وقت سب سے اچھی پرفامنس دینے والی ٹیم بھارت ہے۔بھارتی کوچ روی شاستری نےدورہ آسٹریلیا پر ٹیم کے ہمراہ روانگی سے قبل نئی دہلی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے دو ٹوک کہہ دیا تھا کہ اب تجربات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس وقت ہمیں وہی 13کھلاڑی کھلانے ہیں جنھیں ہم ورلڈ کپ تک لے کر چلنا چاہتے ہیں۔اور اس پر کوئی کمپرومائز نہیں ہوگا۔اس اعلان کے بعد 2011کا ورلڈ کپ فائنل جیتنے والی بھارتی ٹیم کےکئی کھلاڑیوں کے دوبارہ ٹیم میں آنے کی امیدیں دم توڑ گئیں جن میں اس میچ مین آف دی میچ گوتم گھمبیر اور میدان آف دی ایونٹ یووراج سنگھ بھی شامل تھے۔یہی حال باقی ٹیموں کا بھی ہے۔ لیکن پاکستانی ٹیم کا مسئلہ کچھ الگ ہے۔ یہاں کھلاڑیوں کی کارکردگی کے نہ تو اچھا ہونے میں تسلسل ہے اور نہ

ہی خراب ہونے میں۔اس لئے کپتا ن اور چیف سلیکٹردونوں کومشکلات پیش آرہی ہیں۔پاکستانی کرکٹ ٹیم ابھی تک ایک ایسا یونٹ یا کمبی نیشن نہیں بن پارہی جسے آنکھیں بند کر کے ورلڈ کپ کا سکواڈ بنا دیا جائے۔اگرچہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر اس بارے میں بڑی غیر لچکدار سوچ کے مالک ہیں۔ وہ جن کھلاڑیوں کو پسند کرتے ہیں انھیں آخری لمحے تک موقع دیتے اوردیکھتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ اپنی عزت بچاتے ہوئےکوچ کو چپ چاپ اپنے کام کرنے دے رہے ہیں اوران کے کسی بھی معاملے میں ٹانگ نہیں اڑا رہے ۔ادھر کپتان سرفراز احمد کے بارے میں بھی یہی سنا جاتا ہے کہ اکثر وہ ٹیم میں سلیکشن کے حوالے سے فیصلوں سے ہیڈ کوچ سے ناخوش رہتے ہیں۔ایشیا کپ کی بات ہے محمد عامر کرکٹ نہیں کھیلنا چاہ رہے تھے وہ آرام کرنا چاہتے تھے لیکن کوچ کے اسرار پر وہ کھیلتے رہے ۔عماد وسیم ایک سال ٹیم سےباہر رہے ۔وہ فٹ بھی ہوگئے تھے لیکن کوچ کی منشا نہیں تھی چنانچہ انھیں واپسی کےلئے بڑا انتظار کرنا پڑا۔اب صورتحال یہ ہے کہ وہ مسائل حل ہوگئے ہیں لیکن کھلاڑیوں کی غیر مستقل مزاج پرفارمنس ہی پریشانی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ احمد شہزاد چاہ ماہ کی پابندی جھیلنے کے بعد اب ڈومیسٹک کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ جبکہ قومی ٹیم کی نمائندگی آخری بار انھوںنے گزشتہ سال ورلڈ

الیون کے خلاف سیریز کے دورا ن کی تھی اس لئے اس بات کے امکانات کم ہی ہیں کہ وہ ٹیم میں واپس جگہ بناپائیں گے۔ عمر اکمل کے بارے میں تو بھول ہی جائیں کہ جب تک مکی آرتھر کوچ ہیں وہ دوبارہ ٹیم میں قدم بھی رکھ پائیں گے۔کامران اکمل کی ڈومیسٹک پرفارمنسز شاندار ہونے کے باوجود انھیں طویل عرصے سے انٹر نیشنل کرکٹ نہیں کھلائی گئی اس لئے ان کی واپسی کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابرہیں۔البتہ بائولنگ ایک ایسا شعبہ ہے جس کے بارے میں ٹیم انتظامیہ پر اعتماد ہو گی اورورلڈ کپ کھیلنے جانے والے بائولروں کے نام بھی شاید فائنل ہوچکے ہوں گےلیکن بیٹنگ یونٹ میں تاحال مسائل اپنی جگہ قائم ہیں۔