150کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے بائولنگ چاہیے
جہانسبرگ (مانیٹرنگ ڈیسک) جنوبی افریقہ کے خلاف چوتھے میچ میں کامیابی پاکستانی ٹیم کےلئے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے۔عثمان خان شنواری دونوں ٹیموں کے مابین واضح فرق ثابت ہوئے ہیں ۔ ان کی تیز رفتارسوئنگ بائولنگ جنوبی افریقی بلے بازوں کےلئے ایک سرپرائز پیکج تھا۔عثمان خان شنواری ون ڈے سیریز سے قبل آسٹریلیا میں ہونےوالی بگ بیش ٹی ٹوئنٹی لیگ میں شریک
تھے۔یہاں انھوںنے خاصی تیز رفتار بائولنگ کی۔عثمان شنواری ایک ایسے وقت میں بگ بیش کھیل رہے تھے جب پاکستانی بائولر ٹیسٹ سیریز میں جنوبی افریقی وکٹوں پر اپنی کم رفتار کی وجہ سے ناکامی سے دوچار تھے۔ایک طرف میزبان ٹیم کے بائولر تھےجو 145کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے گیند بازی کر رہے تھے تو دوسری جانب پاکستانی بائولرز تھے جن کی رفتار 125سے 130 کلومیٹر فی گھنٹا سے زیادہ نہیں تھی۔اس بات کا انکشاف خود پاکستانی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے بھی کیا تھا۔جب سابق فاسٹ بائولراور ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید نے بھی ان وکٹوں پر عثمان خان شنواری کی کمی کو محسوس کیا تھا۔جون میں پاکستانی کرکٹ ٹیم ورلڈ کپ کھیل رہی ہوگی جس کے میچز کا انعقاد انگلینڈ کی تیز اور بائونسی وکٹوں پر ہوگا ۔ وہ کنڈیشنز بھی عثمان خان شنواری کو کافی سوٹ کریں گی۔ عثمان شنواری نے متحدہ عرب امارات کی سلو وکٹوں پر ایشیا کپ میں پاکستانی ٹیم کی نمائندگی کی تھی جس میں انھیں خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی تھی
تاہم اب اس بات کی ضرورت ہے کہ انھیں تسلسل کے ساتھ کرکٹ کھلائی جائے تاکہ ان میں اعتماد پیدا ہواور وہ اس کمبی نیشن کا حصہ بن سکیں جو پاکستان کو جیت کےلئے درکار ہو گا۔ حسن علی ایک بائولر کی حیثیت سے کچھ عرصے سے تسلسل سے کارکردگی دکھانے میں کامیاب نہیں ہوپارہے ۔ جبکہ وہ ایک میڈیم پیسر ہیں۔ورلڈ کپ میں خاطر خواہ نتائج کےلئے عثمان خان شنواری کی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنا چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کےعلاوہ کپتان کےلئے ایک بارآور اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔