سرفراز کی سزا ۔۔۔ دشمنوں نے چال تو چل دی لیکن الٹی پڑ گئی
جہانسبرگ/لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک)سنچورین میں دوسرے ایک روزہ میچ کے دوران جب جنوبی افریقہ کی ٹیم بیٹنگ کررہی تھی اور 204رنز کے ہدف کے تعاقب میں میزبان ٹیم کی 80کے مجموعے پر پانچ وکٹیں گر گئیں۔ اس موقع پر نوجوان آل رائونڈ کرکٹر فیلوکوایو نے اپنے کیرئیر کا دوسرا میچ کھیلنے والے وین ڈر ڈاسن کے ہمراہ مل کر چھٹی وکٹ پر ایک لمبی سانجھے داری قائم کی جس سے میچ میں واپس
آنے کی پاکستانی ٹیم کی کوششوں پر پانی پھرگیااور میچ دوبارہ جنوبی افریقہ کی جھولی میں چلا گیا۔فیلوکوایو نے 37ویں اوور کے اختتام پر اپنے پچاس رنز مکمل کیے۔جس پر پاکستانی ٹیم کے کپتان سرفراز احمد نے وکٹوں کے پیچھے سے کچھ الفاظ کہے جنھیں مائیک پر سن لیا گیا وہ الفاظ یہ تھے ” ابے کالے! کہاں تیری امی بیٹھی ہوئی ہیں ،کیا پڑھوا کر آیاہے آج” اس موقع پر جنوبی افریقی کمنٹیٹر مائیک ہیسمین نے رمیز راجہ سے پوچھا ” رمیز ! کیا کہہ رہا ہے وہ ؟” جس کے جواب میں رمیز راجہ نے پیشہ ورانہ ذمہ داری اور مصلحت آمیز رویہ اپناتے ہوئے جواب دیا ” یہ ایک طویل جملہ ہے جس کا ترجمہ کرنا مشکل ہے”۔صاف ظاہر ہے کہ جیسے یہ اردو جملہ ایک جنوبی افریقی کمنٹیٹر کی سمجھ میں نہیں آیا توایک جنوبی افریقی کھلاڑی کی سمجھ میں یہ کیسے آتا۔ ایک علاقائی زبا ن جو بین الاقوامی زبان نہیں ہےاور جس میں کہی گئی کسی بھی بات کو ایک یکطرفہ سرگرمی قرار دیا جانا چاہیے تھانسلی تعصب پر مبنی رویہ کیسے بن گئی اور اسے
ایک نسلی تعصب یا نسل پرستی پر مبنی رویہ قرار دلوانے کےلئے ترجمان کا کردار کس نے اداکیا ۔یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ظاہر ہے یہ انھی خیر خواہوں کا کام ہے جو ازل سے پاکستانی کرکٹ کو نقصان پہنچانے کی کوششوں میں جتے رہتے ہیں ۔جنھوںنے سازش کرکے پاکستان پربین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند کروائے۔اس واقعے کے چند ہی گھنٹوں کے بعد کرکٹ کی معروف عالمی ویب سائٹ ای ایس پی این کرک انفو پر پڑوسی ملک کے ایک بلاگر نے اس واقعے پر ایک مفصل بلاگ لکھا ہواتھاجس میں نہ صرف اس واقعے کی پوری تفصیل تھی بلکہ سرفراز کے کہے گئے الفاظ کو پہلے رومن انگریزی میں لکھا گیا تھااور پھر ان الفاظ کا حرف بہ حرف اور لفظ بہ لفظ ترجمہ بھی کیا گیا تھا۔ایک صحافی کے کسی خبر کو رپورٹ کرنے سے زیادہ یہ اقدام خاصا معنی خیز تھا۔یہ کرکٹ پاکستان کو نقصا ن پہنچانے کی ایک دانستہ کوشش تھی۔اس کے جو مقاصد مطلوب تھے انھیں گزشتہ روز حاصل کر لیا گیا۔سیریز کے ایک انتہائی نازک موڑپر پاکستانی ٹیم کو اس کے کپتان سے محروم کر دیاگیا۔سرفراز کے معافی تلافی کےلئے اپنائے گئے مفاہمت آمیز رویے کے بعد کیا یہ سزا بنتی تھی یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔لیکن دشمنی کرنے والوں کے مقاصد میں صرف سرفراز کو ٹیم سے الگ کرنا ہی شامل نہیں تھا بلکہ ٹیم پاکستان کو جنوبی افریقہ کے
خلاف ون ڈے سیریز میں شکست کی عزیمت سے دوچار کروانے کےلئے اپنا کردار اداکرنا بھی ان کا نصب العین تھا۔لیکن نتیجہ کچھ اور ہی نکلا۔شعیب ملک سے ٹھنڈے مزاج اور زیرک کھلاڑی کی قیادت میں ٹیم پاکستان جہانسبرگ میں زیادہ عزم کے ساتھ میدان میںاتری۔گرین شرٹس پر سرفراز احمد سے جڑے متنازعہ واقعے کا جو دبائو تھا ، وہ سزا کے فیصلے کے بعد اتر چکا تھا۔جرم کے سرزد ہوجانے کے باعث ایک کھلاڑی کے سزا یافتہ ہوجانے کے بعد اب پاکستانی ۓٹیم کے پاس مزید کھونےکےلئے کچھ بھی نہیں تھا۔اس کے بعد قومی کھلاڑیوں نے جس طرح دل ہی دل میں جشن مناتے جنوبی افریقی کھلاڑیوں کو جس طرح دھول چٹائی وہ سب کے سامنے ہے۔جنوبی افریقہ کے خلاف چوتھے میچ میںکامیابی کرکٹ پاکستان کے دشمنوں کےلئے ایک نوشتہ دیوار ہے کہ جب بھی قومی کھلاڑیوں کے جذبات پر کوئی حملہ ہوتا ہے تو وہ پلٹ کر دس گنا طاقت کے ساتھ اس کاجواب دیتے ہیں۔چاہے وہ جنوبی افریقہ کے خلاف پنک ون ڈے میچ ہو یا چیمپئینز ٹرافی 2017کا فائنل۔