پاکستان میں کو ن کون سی انٹرنیشنل ٹیموں کو لانے پر کام شروع ہو گیا شائقین کےلئے آخر کار اچھی خبر آگئی
ٹیموں کے سیکیورٹی سربراہان کلیئرنس نہیں دیتے،میں یہ جاننے کی کوشش کروں گا کہ تحفظات کو دور کرنے کیلیے مزید کیا اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں۔انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلیے چند چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے رہنا ہوگا،لاہور میں سہولیات سے مزیئن نیشنل کرکٹ اکیڈمی موجود ہے،میں کائونٹی ٹیموں کو پاکستان لانے کی کوشش کروں گا،مہمان کرکٹرز یہاں سے خوشگوار یادیں لے جائیں
گے تو ہماری مہم کو تقویت ملے گی۔اس کے علاوہ بھی تجاویز ذہن میں ہیں، میں چیئرمین پی سی بی احسان مانی کیساتھ بیٹھ کر ان پر بات کروں گا، اے ٹیموں کو پاکستان لانا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہوگا، انھوں نے کہا کہ پی ایس ایل ایک اچھی پروڈکٹ بن چکی،اس کے میچز کا ملک میں انعقاد بھی غیرملکی کرکٹرز اور بورڈ کی رائے تبدیل کرنے کا ذریعہ بنے گا، یواے ای میں تمام تر سہولیات ہونے کے باوجود میدان تماشائیوں سے نہیں بھر سکتے، قومی ٹیم کے میچزپاکستان میں ہونے سے کھلاڑیوں اور بورڈ دونوں کو فائدہ ہوگا۔ایم ڈی پی سی بی وسیم خان نے کہا کہ انگلینڈ سے لاہور منتقل ہونے پر کوئی پریشانی نہیں، میرا آبائی تعلق آزاد کشمیر سے اور اہلیہ کے بیشتر عزیز لاہور میں رہتے ہیں، پاکستان آنا جانا بھی لگا رہتا ہے، اس لیے یہاں رہائش رکھنے پر کسی فکر میں مبتلا نہیں، انھوں نے کہا کہ اسکول تبدیل ہونے سے بیٹی کیلیے تھوڑی مشکلات ہوں گی لیکن پاکستان کرکٹ کیلیے کچھ کرنے کا جذبہ ہے،مسائل ہوئے بھی تو حل نکل
آئے گا۔ایم ڈی پی سی بی وسیم خان مارکیٹنگ کے شعبے میں بھی بہتری لانے کے خواہاں ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ ہونے کی وجہ سے میڈیا رائٹس سمیت دیگر معاملات میں زیادہ آمدن نہیں ہوتی،مقامی صنعتکاروں کو زیادہ دلچسپی نہیں ہے،ہم دیگر ملکوں کے اس ضمن میں اقدامات کا مطالعہ کرتے ہوئے سسٹم کو بہتر بنائیں گے۔









