اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارت نے ایشیا کپ کے میچ میں مسلسل دوسری مرتبہ پاکستان کو شکست دے دی ہے۔39.3اوورز میں صرف ایک وکٹ کے نقصان پر 239رنز کا ٹارگٹ پورا کرلینا اس بات کی غماز ی کرتا ہے کہ اگر گرین شرٹس 300رنز تک کا ہدف بھی مقرر کرتیں تو بھی بھارت کو سکور کے تعاقب میں کچھ خاص دقت پیش نہ آتی تاہم کچھ لوگوں کا
خیال ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو بھارت پر نفسیاتی دبائو ہوتا اور پاکستانی ٹیم کی باڈی لینگوئج بھی بہتر ہوتی ۔ لیکن خیر یہ ساری اگر مگر کی باتیں ہیں۔ آئوٹ ہونے والے بلے باز شیکھر دھون بھی سنچری مکمل کرنے کے بعد صرف غلط رن لینے کی کوشش میں آئوٹ ہوئے ۔ دوسری
جانب روہت شرما نے پہلےفیلڈر امام الحق اور پھر فخر زمان کی کی گئی غلطی کی پاکستان کو ایسی سزا دی کہ دونوں یاد ہی رکھیں گے۔ اور دوسری جانب ابوظہبی میں افغانستان بھی سخت مقابلے کے بعد بنگلہ دیش سے شکست کھا کر پاکستان جیسی ہی پوزیشن میں آگیا ہے۔
صورتحال بالکل واضح ہو چکی ہے ۔ بھارت پورے ایونٹ میں ناقابل شکست رہ کر فائنل میں پہنچ چکا ہے ۔ جبکہ پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش کی ٹیموں کا اس ٹورنامنٹ میں مستقبل اپنے اگلے میچوں سے جڑ گیا ہے۔ پاکستانی ٹیم جس قسم کی پرفارمنس اب تک کرتی رہی ہے ْ
۔ اسے دیکھ کر یہی لگ رہا ہے کہ بنگلہ دیش کو ہرانے کےلئے بھی اسے بہت زیادہ محنت کرنا ہو گی۔ اگلے میچوں میں پاکستان بنگلہ دیش کے جبکہ افغانستان بھارت کے مد مقابل ہو گا ۔ اگر بنگلہ دیش نے پاکستان کو ہرا دیا اور افغانستان بھارت سے ہار گیا (جس کے قومی
امکانات ہیں ) تو بنگلہ دیش فائنل کےلئے کوالیفائی کر لے گا۔ظاہر ہے اگر پاکستان بنگلہ دیش کو شکست دے دیتا ہے اور افغانستان بھی بھارت سے اپنا میچ ہار جاتا ہے تو پاکستان فائنل میں اور ایونٹ میں تیسری بار بھارت کے آمنے سامنے ہوگا ۔ بالخصوص اس میچ میں اور بالعموم
پورے ٹورنامنٹ میں بھارت نے ٹاس ہار کر بھی اب تک کوئی بھی دبائو نہیں لیا اور گرائونڈ میں بڑی تسلی اور آرام سے اپنے فیصلے کر کے تینوں شعبوں میںگیم کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ بھارتی ٹیم کی ساری مشینری پوری طرح فعال ہے۔ دونوں فاسٹ بائولر بھووینشور
کمار اور جسپریت بمراہ زبردست کنٹرول کے ساتھ بولنگ کررہے ہیں ۔ خاص طور پر بمراہ آخری اوورز میں بلے بازوں کو کوئی بھی موقع نہیں دیتے۔ پھر بھارت کا سپن ڈیپارٹمنٹ تو پوری طرح حاوی رہتا ہے۔دونوں نوجوان بائولر کلدیپ یادو اور چاہل رنز روکے رہتے ہیں
اور وکٹیں بھی نکال لیتے ہیں اسی طرح جدیجا کی بھی اچھی واپسی ہوئی ہے جبکہ کیدر جادھیو بھی مفید بائولر ثابت ہورہے ہیں۔ بھارت فیلڈنگ کے اعتبار سے بھی بہت اچھی ٹیم ثابت ہورہی ہے۔ جبکہ بیٹنگ میں تو کچھ بھی کہنے کی ضرورت ہی نہیں۔ بھارتی مڈل آرڈر
اور لوئر مڈل آرڈر کو میدان میں اترنے کا کم ہی موقع ملتا ہے۔ اس ایونٹ میں بھی ماسوائے پہلے میچ کے بھارتی کھلاڑی پیڈز باندھ کر اپنی باریاں آنے کا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔ کیونکہ ٹاپ آرڈر آئوٹ ہو تو مڈل اور لوئر مڈل آرڈر کو موقع ملے ۔دونوں اوپننگ بلے باز
بھرپور فارم میں ہیں۔ دوسری جانب پاکستانی ٹیم ہے۔ جسے فائنل میں کھیلنے کےلئے بھی ابھی تک بنگلہ دیش کا چیلنج درپیش ہے۔ جبکہ ایونٹ کی بے بی ٹیم افغانستان سے پاکستانی ٹیم کس طرح جیتی ۔ سب نے دیکھ لیا۔ پاکستانی ٹاپ آرڈر بھارت کے بالکل بر عکس اس پورے
ایونٹ میں بری طرح فلاپ ہوا ہے۔ بالخصوص فخر زمان پر تو پہلے ہی کئی سوال اٹھ چکے ہیں۔ پھر لوئر مڈل آرڈر پر سرفراز اور آصف علی پر جاکر ہماری بیٹنگ ختم ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد بائولر شروع ہوجاتے ہیں۔ اور یہ دونوں بلے باز بھی اس ایونٹ میں کوئی قابل ذکر
کارکردگی نہیں دکھا سکے ۔ اب بائولنگ پر آجائیے۔ محمد عامر مکمل طور پر آئوٹ آف فارم ہیں۔ حسن علی بھی بالکل بھی ردھم میں دکھائی نہیں دے رہے۔ عثمان شنواری کو افغانستا ن جیسی ٹیم کے بلے بازوںکے ہاتھوں پٹائی ہونے پر اگلے میچ میں ریسٹ دے دی گئی۔ فہیم
اشرف کی صلاحیتوں پر بھی بھروسہ نہیں کیا جا رہا ۔ جبکہ شاداب خان بھی بھارتی سپنروں جیسی ورائٹی اور کلاس جنریٹ نہیں کر پارہے۔ محمد نواز ہی شاید ایک بولر ہیں جن پر پاکستانی ٹیم آئندہ میچوں میں زیادہ انحصار کر رہی ہوگی لیکن ظاہر ہے کہ کسی متوسط یا
معمولی ہدف کا دفاع کرتے ہوئے کوئی ایک بائولر بھی زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتا ہے ۔سوائے اس کے کہ وہ اپنے سپیل میں رنز روک لے اور دو تین وکٹیں نکا ل لے ۔ یو اے ای کو پاکستان کا ہوم گرائونڈ سمجھا جا رہا تھا ۔ پاکستان یہاں پر بھارت یا کسی بھی اور ٹیم کی نسبت
زیادہ کھیلتا رہا ہے۔پاکستان سپر لیگ تک کا انعقاد یہیں پر ہوتا ہے۔ پاکستانی کھلاڑیوں کو یہاں کی کنڈیشنز کا زیادہ آئیڈیا تھا۔ ویرات کوہلی کے بغیر کھیلنے والی بھارتی ٹیم کی نسبت پاکستان کو ایونٹ کا فیورٹ سمجھا جا رہا تھا لیکن ایسے کئی لوگوں کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کرکٹ خیالات اور تصورات سے بھی کہیں زیادہ مختلف اور مشکل کھیل ہے۔پاکستانی ٹیم اس
ایونٹ میں بکھری ہوئی نظر آئی ۔ کھلاڑی ایک دوسرے سے زیادہ بات چیت کرتے ہوئے اور گاہے بگاہے رابطہ کرتے ہوئے بھی نہیں دکھائی دیے۔ سرفراز احمد پریشر کی صورتحال میں اپنے کھلاڑیوں کو بہت زیادہ ڈانٹتے ہوئے اور روتے پیٹتے ہوئے دکھائی دیے جس سے
کھلاڑیوں کا مورال مزید گر تا رہا جبکہ ان کے برعکس دھونی نے اسی گفتگو کو مثبت مشاورت اور فائدہ مند ٹپس دینے کےلئے استعمال کیا۔وکٹوں کے پیچھے کھڑے ہوکر ایک ہدایتکار کا کردار ادا کرنا زیادہ آسان اور فائدہ مند ہو سکتا ہے ۔یہ حقیقت تسلیم کرنے میں کوئی بھی عار نہیں کہ پاکستانی ٹیم نوجوان کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جس کی کافی ساری گرومنگ
کی گنجائش موجود ہے۔ان لڑکوںکو انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا ابھی بہت زیادہ تجربہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس بھارتی ٹیم کے سات یا آٹھ کھلاڑی پانچ سال یا اس سے زائد عرصے سے کرکٹ کھیل رہے ہیں۔ ۔ اس تناظر میں یہ رائے قائم کرنا قطعی مشکل نہیں کہ پاکستانی ٹیم
فائنل میں رسائی کی صورت میں بھی بھارت سے تینوں شعبوں میں مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ ٹیم مینجمنٹ میں سے کسی کو وقت نکال کر ان سارے معاملات پر بات کرنے اور ان کی اجاگر کرنے کی، کھلاڑیوں کو ایک پیج پر لینے کی اورایک ٹھوس لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے









