لاہور (ویب ڈیسک) طارق عزیز اور نیلام گھر : کیا یہ نام کسی تعارف کے محتاج ہیں ، بلاشبہ یہ دونوں نام ایک دوسرے کا اور پاکستان کا تعارف تھے ۔ طارق عزیز کے انتقال کو آج کئی ماہ گزر گئے لیکن انکی کمی شائد ہی کبھی پوری ہو ، نامور کالم نگار ایثار رانا اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ہیں “یہ غالبا دوہزار چھ کی بات ہے پٹیالہ میں پنجابی یونیورسٹی کے زیر اہتمام پاکستان سے آئے وفد کے اعزاز میں تقریب تھی .حال میں لگ بھگ دس ہزار افراد بیٹھے تھے۔میں بھی اس وفد کا حصہ تھا تقریب کیا تھی بھارتی کی ثقافتی یلغار تھی ۔اچانک حال کی تمام لائِٹس بند ہوگئیں۔
ایسا لگا دور کہیں دور سے پنجابی مٹیاریں لے بھرے انداز میں ٹپّے گاتی آرہی ہیں۔ایک خوابناک ماحول تھا اچانک میرے ہیچھے سیڑھیوں سے پنجابی یونیورسٹی کی طالبات ہاتھوں میں بڑے بڑے تھال اٹھائے جن میں گجرے مہندی تیل اور ابٹن رکھا تھا اور اصل خوبصورتی یہ تھی کہ ان تھالوں میں چھوٹے چھوٹے دئیے جل رہے تھے اندھیرے میں دیئوں کی روشنی الہڑ مٹیاروں کے گیت میں کیا پورا پاکستانی وفد اس سحر میں گم صم بیٹھا تھا۔جیسے امرتا پریتم بلھے شاہ وارث کا کوئی کلام زندہ ہوکے ہمارے درمیان آکھڑا ہو۔پھر یہ لڑکیاں ہمارے درمیان سے گیت گاتیں سٹیج پر آئِیں اور ایسا گدّا ڈالا کہ واقعی انکی ایڑیاں زمین پہ پڑتیں اور لگتا دھرتی کانپ رہی ہے۔بھارتی ہم پہ چھائے ہوئے تھے۔انہوں نے اپنی ثقافت بھر پور انداز میں پیش کرکے پورے پاکستانی وفد کو سحر زدہ کردیا۔تقریب ختم ہونے کے قریب تھی کہ پروگرام کے میزبان نے کہا تقریب ختم ہوا چاہتی ہے لیکن وہ پاکستانی وفد میں آئے طارق عزیز سے درخواست کریں گے کہ چند لفظ بول دیں۔یہ ساری تقریب پنجابی میں ہورہی تھی ۔طارق عزیز سٹیج پہ آئے۔انہونے مائیک سنبھالا اور یوں لگا بھارتی ثقافت ہوا میں اڑ گئی ہو۔طارق عزیز نے ابھی اتنا ہی کہا کہ ‘اج آکھاں وارث شاہ نوں’دس ہزار کے
ہال میں سکتہ ہوگیا صرف وہاں ایک ہی آواز تھی وہ تھی طارق عزیر۔۔میں نے پٹیالہ کے امرا بیوروکریسی سیاستدانوں وزرا اساتذہ اور حاضرین کے چہرے غور سے دیکھنا شروع کئے جیسے وہ سب طارق عزیز کے لافانی لہجے الفاظ کے جادو انکی شخصیت کے سحر میں ڈوب گئے ہوں۔زندگی میں پہلی بار مجھے محسوس ہوا میرے رونگٹے کھڑے ہیں۔میں ایک احساس کمتری کا مارا صحافی ہوں کسی کو تسلیم کرنے میں بہت تکلیف محسوس کرتا ہوں لیکن میرا دل کررہاتھا کہ میں زور زور سے چیخوں ‘یہ ہمارا طارق عزیز ہے ۔دیکھو یہ ہمارا چہرہ ہے،دیکھو پاکستان ثقافت میں تم سے کم نہیں۔تمام بھارتی فنکار مجھے چھوٹے چھوٹے محسوس ہورہے تھے۔مجھے لگا چاروں طرف سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہوں۔طارق بولتے گئے اور پورا حال بت بنا انہیں دیکھتا رہا۔مجھے ہوش تب آیا جب طارق عزیر کے جواب میں پورے حال نے کہا پاکستان زندہ باد۔میں۔نے اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرا وہ آنسوئوں سے تر تھا۔طارق عزیز صاحب مجھے آج احساس ہوا آپ نے مجھے احساس کمتری سے نکالا۔میرے اندر کے بھارتی چکاچوند سے چندھیائے پاکستانی کو احساس فخر دیا۔آپ چلے گئے لیکن یہ دیکھتی آنکھیں سنتے کان آپکی سچُی کھری آواز کو ترستے رہیں گے۔بیٹا ہو تو آپ جیسا،آپ اپنی ساری جائیداد ریاست کے نام کرگئے۔ریاست ماں نہ بن سکی آپ نے بیٹا بن کے دکھا دیا۔کاش اس دھرتی سے فیضیاب ہونے والے سارے سابق صدرور وزرائے اعظم ججز جرنیل صنعتکار اپنی دھرتی ماں کو آپ جیسا خراج دے سکیں۔آنکھیں نم ہیں مزید لکھا نہیں جارہا۔بس ایک بار کہ دیں ۔۔۔۔۔پاکستان،میں آپ کے ساتھ زندہ باد کہنا چاہتا ہوں”