کراچی (ویب ڈیسک) پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ میں گزشتہ دو مہینوں سے خفیہ رابطے ہونے کا انکشاف منظر عام پر آیا ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے متحدہ قومی موومنٹ کو وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت کا ساتھ چھوڑ کر سندھ میں پی پی کی حکومت کے ساتھ کراچی کے وسیع تر مفاد میں اتحاد کرنے اور وزارتیں لینے کی دعوت اور اس پر متحدہ سے تعلق رکھنے والے کراچی کے میئر وسیم اختر کی جانب سے وفاقی حکومت سے شکایتوں کا انبار لگانے کے بعد اس بحث نے ایک دفعہ پھر جان پکڑ لی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو خطرہ ہے۔
ہمارے ذرائع کے مطابق پی پی اور ایم کیو ایم میں یہ بات چیت گزشتہ دو مہینے سے چل رہی ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ سندھ کی حکومت نے کراچی میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے تیزی دکھانا شروع کردی ہے جس سے ایم کیو ایم کے ووٹرز مستفیض ہورہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما نے بتایا کہ ہمیں سندھ میں قدرتی طور پی پی کیساتھ اتحاد راس راس آتا ہے بصورت دیگر آپ اپوزیشن میں رہ کر اپنے ووٹرز کیلئے کچھ نہیں کرسکتے۔ ایم کیو ایم کے ایک ممبر قومی اسمبلی نے ہمیں نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایم کیو ایم کے اندر اب یہ مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت سے اتحاد کو ختم کیا جائے کیونکہ اس کا براہ راست اثر ایم کیو ایم کے ووٹر پر پڑرہا ہے اور اُس کا رحجان پی ٹی آئی کی مہاجر قیادت کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا آنے والے کسی بھی انتخاب میں ایم کیو ایم کو شدید نقصان ہوگا اسکی واضح مثال عمران خان کی خالی کردہ نشست پر پی ٹی آئی کی یکطرفہ کامیابی ہے جہاں پر ایم کیو ایم کے ووٹر نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔
ایم کیو ایم کے ایک اور رہنما نے بتایا کہ ہمیں سندھ میں قدرتی طور پی پی کے ساتھ اتحاد راس راس آتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ہمیں ابھی تک کچھ نہیں دیا وزارت قانون بس نام کو ہماری ہے اور آئی ٹی ابھی تک ریفارمز کے مراحل میں ہے اور جب سے گوگل چھوڑ کر تانیہ ایڈرس نے جوائن کیا ہے وزارت کی ساری توجہ اُن کے پلانز پر مرکوز ہوگئی ہے۔ انھوں پی پی کو بحیثیت اتحادی ایک مشکل جماعت قرار دیا مگر انگریزی کی کہاوت ہے کہ بالکل نہ ملنے سے کچھ ملنا ہی اچھا ہے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے اس دور میں کراچی کی ہماری عوام کیلئے کچھ تو سہولت ہونی چاہیے۔ پی پی ذرائع کے مطابق سندھ حکومت والے ایم کیو ایم کو گلے لگانے کیلئے تیار بیٹھے ہیں بلکہ ہمیں یہ بھی پتا چلا ہے کہ اگر ایم کیو ایم نے سنجیدگی نہیں دکھائی تو یہ اتحاد پی ایس پی کے ساتھ بھی کیا جاسکتا ہے جس سے پی پی کی حکومت آئندہ بلدیاتی انتخابات میں فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اور بدلے میں پی ایس پی کو ایک یا دو مشیر دیئے جاسکتے ہیں ۔ پی ٹی آئی کے ذرائع نے بلاول بھٹو کی اس دعوت کو دیوانے کا خواب قرار دیا ہے اور کہا کہ ایم کیو ایم کا اتحاد پی ٹی آئی سے نہیں درحقیقت ایک نظام سے ہے جو کرپشن سے پاک نیا پاکستان بنارہا ہے جس میں پی پی جیسی جماعتوں کی کوئی جگہ نہیں۔ عوام کے مطابق وہ نوکریاں چاہتی ہے اور شہر کو ترقی کرتا دیکھنا چاہتی ہے اُسے کوئی پرواہ نہیں کہ ایم کیو ایم یہ سب پی پی سے حاصل کرے یا پی ٹی آئی سے۔ گزشتہ سولہ مہینوں میں ابھی تک وفاقی حکومت کی طرف سے کراچی کے لیے کچھ ایسا نہیں کیا گیا جس سے کراچی کی عوام کو کوئ خاطر خواہ سہولت میسر ہورہی ہو اور عوام شدید مایوسی کا شکار ہے۔









