اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ اور سینئیر صحافی ریحام خان نے چند روز قبل ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ یہ باتیں گردش کر رہی ہیں کہ آرمی چیف ایکسٹینشن نہیں لیں گے،ریحام خان کا کہنا تھا کہ جب میں 2012ءمیں پاکستان آئی تو اُس وقت آرمی پرویز مشرف کے بعد تھوڑی معذرت خواہ لہجے میں تھی۔ہم نے بچپن میں ان کا رعب دیکھا تھا لیکن اُس وقت مجھے وہ رعب کم لگا میں بھی حیران ہوئی کہ ایسا کیوں ہوا۔
اس کے بعد راحیل شریف کے دور میں ہم نے دیکھا کہ جنرل عاصم باجوہ نے زبردست آئی ایس پی آر کیا۔راحیل شریف کے وقت بھی آرمی کا پی آر اچھا ہوا اور اُنہوں نے ایکسٹینشن نہ لے کر بہت اچھا کیا۔اور اقتدار کی منتقلی نہ صرف جمہوریت بلکہ پاک فوج، عدلیہ سمیت دیگر اداروں میں بھی بہت ضروری ہوتی ہے۔ریحام خان نے کہا تھا کہ آرمی چیف ایکسٹینشن نہ لے کرسب سے بڑی خدمت کر سکتے ہیں،اگر وہ اپنی مرضی سے ایکشٹینشن نہیں لیتے تو لوگ اُن کی عزت کریں گے۔ریحام خان نے آج کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کہا ہے کہ آج سے قانونی مقدمات کا آغاز ہے جو کہ تاریخ رقم کریں گے۔
خیال رہے آج م آج سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا حکم معطل کرتے ہوئے اسے عوامی اہمیت کا معاملہ قرار دیتے ہوئے از خود نوٹس لے لیا جو کہ چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کا پہلا ازخودنوٹس ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا صدر کی منظوری اور نوٹیفیکیشن دکھائیں۔اٹارنی جنرل نے دستاویزات اور وزیراعظم کی صدر کو سفارش عدالت میں پیش کی۔چیف جسٹس نے کہا وزیراعظم کو آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیار نہیں۔آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیار صدر کا ہے۔یہ کیا ہوا پہلے وزیراعظم نے توسیع کا لیٹر جاری کر دیا۔پھر وزیراعظم کو بتایا گیا کہ توسیع آپ نہیں کر سکتے۔آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفیکیشن 19 اگست کا ہے۔19 اگست کو نوٹیفیکیشن ہوا ، وزیراعظم نے کیا 21 اگست کو منظور دی۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری چاہئیے تھی۔چیف جسٹس نے کہا کابینہ کی منظوری سے پہلے ہی توسیع کی منظوری دی اور کیا کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی؟۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کا اختیار کہاں ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا اختیار وفاقی کابینہ کا ہے۔