Monday November 25, 2024

دیورانی اور جیٹھانی کی ایک ساتھ خودکشی ۔۔۔۔ صحرائے تھر سے ایسی خبر کہ انٹرنیشنل میڈیا بھی کوریج دینے پر مجبور ہو گیا

سکھر (ویب ڈیسک) سندھ کے علاقہ تھر میں مقامی پولیس دو لڑکیوں کی مبینہ اجتماعی خودکشی کی تحقیقات کر رہی ہے۔نتھو بائی اور ویرو بائی کی لاشیں اس کھیت سے ملیں جہاں وہ رہتی تھیں۔ ویرو بائی کا ایک بیٹا بھی ہے۔ان لڑکیوں کی شادیاں دو بھائیوں سے ہوئی تھی جو اسلام کوٹ کے قریب نامور صحافی ایم الیاس بی بی سی کے لیے اپنی ایک رپورٹ میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ ایک گاؤں میں مقامی زمیندار کے لیے کاشتکاری کرتے تھے۔اب تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ اگر انہوں نے خودکشی کی ہے تو اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ اس علاقے میں گذشتہ کچھ عرصے کے دوران خودکشیوں میں اضافہ ہوا ہے۔پاکستان کے صوبہ سندھ میں صحرائے تھر کا علاقہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ لیکن اس کا شمار ملک کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو غربت سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔پولیس کے مطابق وہ تاحال یہ معلوم نہیں کر سکے کہ کہڑی نامی گاؤں میں ان لڑکیوں نے خودکشی کیوں کی۔مقامی پولیس سٹیشن کے چیف انسپیکٹر کبیر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں خود جائے وقوعہ پر گیا تھا۔ یہ بظاہر خودکشی تھی۔ ہم اس کی تحقیقات کر رہے ہیں۔‘’میرے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔ یہ فصل کی کٹائی کا موسم ہے تو ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس کی وجہ بھوک ہوگی۔ لیکن آپ زیادہ کام یا غفلت سے بڑھنے والے گھریلو تناؤ کو بطور وجہ مسترد نہیں کر سکتے۔‘مقامی میڈیا میں نتھو بائی اور ویرو بائی کی زندگیوں سے متعلق زیادہ معلومات نہیں بتائی گئیں۔ دونوں لڑکیاں لگ بھگ 20 سال سے زیادہ عمر کی تھیں اور ان کی شادی دو بھائیوں سے ہوئی تھی۔ ان بھائیوں کا نام چمن کوہلی اور پہلاج کوہلی ہے۔کوہلی خاندان سے واقف یہاں کے ایک رہائشی نے بی بی سی کو بتایا کہ

ویرو بائی کا بیٹا ایک سال کا ہے۔ایک اور مقامی رہائشی نے بتایا کہ گذشتہ چھ ماہ سے دونوں جوڑے ان زمینوں پر رہائش پذیر تھے جو گاؤں سے کچھ فاصلے پر ہیں اور وہ وہاں مکئی کی فصل کی کٹائی میں مدد کر رہے تھے۔تھر میں خشک سالی سے لوگ خودکشیوں پر مجبور ہیں جب اتوار کی صبح مقامی افراد نے ان لڑکیوں کی لاشیں دیکھیں تو انھوں نے پولیس کو اطلاع دے دی۔ڈاکٹر پشپا رمیش نے اسی رات اسلام کوٹ کے ایک ہسپتال میں ان لاشوں کا طبعی معائنہ کیا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ان کے جسموں پر کوئی زخم یا تشدد کے نشانات نہیں تھے جس سے یہ تاثر مل سکے کہ موت کی وجہ کوئی اور ہے۔‘انھوں نے مزید کہا ’دونوں کی والدہ، بھائی اور سسرالی رشتہ دار وہاں موجود تھے۔ وہ غم سے نڈھال تھے۔‘الله جوڈیو اسی علاقے میں کوہلی خاندان کی رہائش گاہ کے قریب رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے ان لڑکیوں کے سسر اور خاوندوں سے دریافت کیا تھا کہ ایسا کیا ہوا کہ انھوں نے اپنی جان لے لی۔جس کے جواب میں انھیں بتایا گیا کہ ’بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی۔ کچھ غیر معمولی نہیں ہوا تھا۔‘اللہ جوڈیو سمجھتے ہیں کہ اس واقعے کے پیچھے گھریلو تناؤ ایک وجہ ہوسکتی ہے۔’ہمارے لوگ بہت غریب ہیں اور اکثر ایک کھانے سے دوسرے کھانے تک زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ لوگ گذشتہ کئی مہینوں سے ان کھیتوں پر کام کر رہے تھے۔ اکثر کچھ غلط ہو جاتا ہے جس کی درستی درکار ہوتی ہے۔ تو ہوسکتا ہے غصے میں متعدد مرتبہ بحث ہوئی ہو۔ دونوں نوجوان تھیں اور شاید اسی لیے انھوں نے اپنی جوانی کے غصے میں یہ تباہ کن قدم اٹھایا ہوگا۔‘سول سوسائٹی کی ایک تنظیم ’آویئر ڈاٹ اورگ‘ کے مطابق تھر میں رواں سال اب تک کم از کم 59 افراد نے خودکشی کی ہے، جس میں 38 خواتین اور دو بچے شامل ہیں جبکہ سنہ 2018 میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد 198 تھی۔ان کی وجوہات میں بڑھتی غربت اور کوئلے کی کان کنی کے منصوبوں سے آبادی کی نقل مکانی بتائی جاتی ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان وجوہات سے گھروں میں کشیدگی عام ہوجاتی ہے۔صورتحال مزید خراب اس لیے بھی ہے کیونکہ حکومتی سطح پر لوگوں کی مدد کے لیے کوئی حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے۔اس خطے میں ہندو سماج کی نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد مقیم ہے۔ تاہم مسلمان اکثریت والے پاکستان میں ان کا درجہ ایک اقلیت کا ہے۔عام طور پر انھیں مقامی زمینداروں کی طرف سے حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ان زمینداروں میں اونچی سمجھی جانے والی ذات کے ہندو اور مسلمان شامل ہیں۔(ش س م)

FOLLOW US