کوئٹہ(آن لائن) بلوچستان یونیورسٹی کے ویڈیو اسکینڈل نے نیا تنازع کھڑا کردیا ہے۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور پروفیسر نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کر دیئے بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کی تحقیقات میں تو پیش رفت نہ ہوسکی تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک دوسرے پر الزامات کا سلسلہ شروع کردیا ہے یونیورسٹی کے پروفیسر فرید اچکزئی نے نجی ٹی وی کے پروگرام میں دعوی کیا کہ وائس چانسلر جاوید اقبال کو 1992 میں بطور لیکچرار غیر ملکی طالبہ کو ہراساں کرنے پر نکالا گیا تھا۔ اس لیے حالیہ اسکینڈل کی شفاف اور غیرجانبدار تحقیقات کیلئے وائس چانسلر کا استعفیٰ ضروری
ہے فرید اچکزئی نے گزشتہ روز یونیورسٹی کے اکیڈمک اسٹاف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے بھی یہی الزام عائد کیا تھا اور اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن نے وائس چانسلر سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا پروفیسر فرید اچکزئی کے الزامات کو وائس چانسلر نے جھوٹ کا پلندا قرار دتے ہوئے الزام عائد کیا کہ خود کو پروفیسر ظاہر کرنے والا لیکچرار فراڈ اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے جامعہ بلوچستان اسکینڈل سے متعلق ایف آئی اے کی تحقیقات جاری ہیں جبکہ طلبا تنظیمیں ایک ہفتے سے سراپا احتجاج ہیں۔ گزشتہ روز بلوچستان اسمبلی میں بھی اسکینڈل زیر بحث آیا جس میں اپوزیشن ارکان نے اسے تشویشناک قرار دیا جبکہ حکومتی ارکان نے شفاف تحقیقات کی یقین دہانی کروائی یاد رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کی طالبات نے گزشتہ ماہ بلوچستان ہائیکورٹ کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا کہ انتظامیہ کے بعض افسران سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کے ذریعے طالبات کو بلیک میل کرکے ہراساں کر رہے ہیں۔ جس پر عدالت نے ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا تھاایف آئی اے نے تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے متعدد افسران سے پوچھ گچھ کی اور ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے مگر تاحال کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔