وزیر اعظم آزاد کشمیر کا کہنا ہے کہ کشمیری عوام نے اپنے جان، مال اور عصمتوں کی قربانی دی ہے اب اس کے پاس گنوانے کو کچھ نہیں اور فیصلہ کرلیا ہے آخری کشمیری تک اب یہ قوم اپنی آزادی کے لیے لڑے گی۔اسلام آباد میں ہونے والی قومی پارلمنٹرینز کانفرنس برائے کشمیر سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ ’72 سال سے کشمیری عوام آزمائش کا سامنا کر رہی ہے، جموں میں نومبر 1947 کو 20 دن میں 2 لاکھ سے زائد کشمیریوں کا قتل عام کیا گیا اور 3 لاکھ سے زائد کشمیریوں نے پاکستان کی جانب ہجرت کی تھی’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آج مقبوضہ وادی میں 1 لاکھ سے زائد شہادتیں ہوچکی
ہیں اور 10 ہزار سے ایسی خواتین ہیں جنہیں معلوم نہیں کہ ان کے شوہر لاپتہ ہیں یا مارے جاچکے ہیں، 10 ہزار خواتین کی آبرو ریزی کی جاچکی ہے، 10 ہزار سے زائد بچے یتیم کیے جاچکے ہیں، سیکڑوں نوجوان بچے اور بچیاں آنکھوں کی بصارت سے محروم کیے جاچکے ہیں’۔انہوں نے کہا کہ ‘بھارت اپنے آپ کو خطے میں برطانوی راج کا وارث سمجھتا ہے، اپنے آپ کو ابھرتی ہوئی، فوجی اور اقتصادی قوت سمجھتا ہے جبکہ مودی نے چالاکی سے بھارت میں کثیر تعداد میں لوگوں کو یکجا کرلیا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘قومی سلامتی کے اجلاس میں بھی میں نے کہا تھا کہ اگر کشمیریوں کا یہ جھنڈا گر گیا تو بھارت کا اگلا نشانہ پاکستان ہوگا’۔راجہ فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان نے پلوامہ حملے کو سانحہ قرار دیا جس کی میں مخالفت کرتا ہوں، اصل سانحہ تو ہمارے ساتھ ہوا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) ایک سیاسی جماعت تھی تاہم اس پر آر ایس ایس نے قبضہ کرلیا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘عالمی جنگ دوئم کی وجہ ہٹلر کا قومیت کو ابھارنا تھا، بھارت بھی اس ہی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے’۔وزیر اعظم آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ ‘ڈونلڈ ٹرمپ سے پیرس میں ملاقات کے دوران نریندر مودی نے کہا تھا کہ 1947 سے پہلے ہم ایک ہی تھے، اگر اس کی بات کی گہرائی میں جائیں تو بھارت پھیلنا چاہتا ہے اور اس کے لیے اس نے سب سے پہلے کشمیر پر حملہ کیا اور بھارت کے راستے میں نہ بنگلہ دیش، نیپال اور دیگر کوئی بھی رکاوٹ نہیں بلکہ اس کے راستے میں صرف پاکستان ہی رکاوٹ ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘کشمیری عوام آپ کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں، اپنا حساب کتاب شروع کردیں، بھارت نے آج مقبوضہ کشمیر لیا ہے اور آزاد
کشمیر کا بھی دعویٰ کیا ہے اور وہ پاکستان کے پانیوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘جن ممالک پر ہم تکیہ کرتے تھے انہوں نے کہا کہ اسے امت کا مسئلہ نہ بنائیں، اگر کشمیر امت کا مسئلہ نہیں تو فلسطین بھی ہمارا مسئلہ نہیں’۔انہوں نے بتایا کہ ‘لاہور میں قرار داد پاکستان کے علاوہ قرار داد فلسطین بھی پیش کی گئی تھی تاہم فلسطین کے صدر محمود عباس نے مودی کو اپنے ملک کا سب سے بڑا اعزاز دے کر ہمارے دلوں کو ٹھیس پہنچائی ہے’۔آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں کسی کی لڑائی میں حصہ لینے سے قبل بھی اپنے مفادات دیکھنے چاہیے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘جب سے یہ مسئلہ بین الاقوامی
سطح پر سامنے آیا ہے ہم نے چند کوتاہیاں بھی کی ہیں، بھارت کے ساتھ کشمیر پر مذاکرات نہیں کرنے چاہیے’۔انہوں نے کہا کہ ‘بھارت نے چالاکی سے کشمیر کو عالمی سطح پر علاقائی تنازع بنا کر پیش کیا، پاکستان نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ کشمیر ہمارا ہے بلکہ پاکستان کہتا ہے کہ کشمیر کی عوام کو ان کا حق ملنا چاہیے اگر ہم نے بھی اسے علاقائی تنازع بنایا تو ہم 700 سال تک کوشش کرتے رہیں گے مگر کوئی ہماری حمایت نہیں کرے گا’۔انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان کو آزاد کشمیر کی حکومت اور حریت کانفرنس کو ایک چھتری کے نیچے لانا چاہیے جس نے آپ کے اور ہمارے کردار کا تعین کرنا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ
‘آپ ہمیں آگے کریں ہماری بات سنی جائے گی آپ کی بات نہیں سنی جائے گی’۔انہوں نے پاکستانی حکومت سے شکوہ کیا کہ ‘پاکستان نے بھارتی سپریم کورٹ کے احکامات کی تائید کی، میں پاکستان کے اس بیان سے اختلاف کرتا ہوں کیونکہ حقیقت میں بھارتی سپریم کورٹ نے عالمی دباؤ سے نریندر مودی کی حکومت کو بیل آؤٹ کیا ہے’۔راجہ فاروق حیدر کا کہنا تھا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے اندر رہنے والے ہماری جانب دیکھتے ہیں کہ انہیں آزاد کرنے والے یہاں سے آئیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میری نانی مجھے بچپن میں کہا کرتی تھیں کہ انہوں نے خواب دیکھا ہے کہ اس جانب سے کشمیر کی آزادی کے لیے ایک لشکر بڑھ رہا
ہے اور تم بھی اس لشکر میں شامل ہو’۔انہوں نے آبدیدہ ہوکر سوال کیا کہ ‘آپ کو کیا ہوگیا ہے کیوں آخری کشمیری کے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں، آزاد کشمیر پر حملے پر فوری بیانات جاری کیے جاتے ہیں مگر وہ کشمیری مارے جارہے ہیں اسے کون روکے گا’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر پاکستان کی ڈھال ہے، کشمیری صرف پاکستان کی جانب دیکھ رہے ہیں، پاکستان ہی کشمیر کی آزادی اور اپنی بقا کا ضامن ہے’۔وزیر اعظم آزاد کشمیر کا کہنا تھا کہ ‘کشمیر کی عوام لائن آف کنٹرول پر سب سے آگے کھڑے ہوں گے اور پاکستانی قوم سے کوئی گلہ نہیں تاہم ارباب اختیار سے کہتا ہوں کہ جب آپ سے خدا سوال
کرے گا تو آپ کیا جواب دیں گے؟’ان کا کہنا تھا کہ ‘انسان کے لیے سب سے بڑی سزا ہے ذلت کی زندگی گزارنا ہے، وقت تیزی سے گزر رہا ہے، اگر آتش چنار بجھ گئی تو وہ مظلوم لوگ کسی کو معاف نہیں کریں گے’۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم نے فیصلہ کرلیا ہے آخری کشمیری تک اپنی آزادی کے لیے لڑیں گے، ہم نے جان، مال اور عصمتوں کی قربانی دی ہے اب ہمارے پاس گنوانے کو کچھ نہیں’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘اب وقت چلا گیا سیاسی، اخلاقی و سفارتی مدد کا، مجھے اب اس سے مطمئن نہیں کیا جاسکتا، اب ہمیں عملی اقدامات چاہیے ہیں، ہم وزیر اعظم کی اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کا انتظار کر
رہے ہیں’۔آخر میں انہوں نے کہا کہ ‘آزاد کشمیر کا کوئی بھی شخص میر جعفر میر صادق نہیں بنے گا، ہم حیدر علی کی طرح اپنا نام امر کریں گے’۔بعد ازاں کانفرنس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ‘مجھے وزیر اعظم آزاد کشمیر کے جذبات کا احساس ہے، آپ کی آنکھیں نم تھیں اس کے پیچھے ایک تاریخ ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ نے درست کہا کہ یہ مسئلہ زمینی ٹکرے کا نہیں بلکہ اس سے زیادہ گہرا ہے، بھارت کے 5 اگست کے اقدامات نے ہماری تشویش میں اضافہ کیا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘میں بحیثیت وزیر خارجہ، حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم آپ کے پیچھے کھڑے
ہیں اور آپ کو باور کرانا چاہتا ہوں کہ دنیا نظریں موڑ سکتی ہے مگر پاکستان آپ پر سے نظریں کبھی نہیں ہٹائے گا’۔انہوں نے بتایا کہ ‘مجھے علم ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کیا کہنا چاہتے ہیں اور میں فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ عمران خان آپ کے جذبات کو مجروح نہیں ہونے دیں گے’۔وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ‘وزیر اعظم عمران خان کی کاوشوں سے 1965 کی جنگ کے 54 سال بعد سلامتی کونسل میں مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا جس کے بات اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری کا بیان بھی سامنے آیا اور اگر وہ ان کی سوچ کی عکاسی کرتی ہے تو اس میں کہا گیا تھا کہ یہ بین الاقوامی سطح پر
منظور شدہ تنازع ہے اور جسے بین الاقوامی قوانین، اقوام متحدہ کے چارٹر، دو طرفہ معاہدے کے تحت حل کیا جاسکتا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم نے سفارتکاری میں کامیابیاں حاصل کی ہیں تاہم سفارتکاری سے فوری حل حاصل نہیں ہوتا اس کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘آج پاکستان کی قیادت میں کوئی لچک نہیں ہے، آج پاکستان کا وزیر اعظم ایک ایسا شخص ہے کہ جس کے اپنے کوئی مفادات نہیں ہیں اس کے لیے صرف پاکستان کے مفادات ہی ترجیح ہیں’۔شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی قربانیاں مجھ سے بہت زیادہ ہیں، مگر ہم آپ کی آواز ہیں، پاکستان سیاست سے بالاتر ہوکر
آپ کے ساتھ کھڑا ہے’۔ان کا کہنا تھا کہ ‘آپ نے تقریر میں بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے کا ذکر کیا، ہمیں معلوم ہے کہ بھارت کی سپریم کورٹ پر کتنا دباؤ ہے’۔انہوں نے کہا کہ ‘بھارتی سپریم کورٹ میں 14 درخواستیں موجود ہیں تاہم ان کی تاریخ تک مقرر نہیں ہوئی ہے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ایسا ماحول بنائیں کہ وہ درخواستیں جب زیر بحث آئیں تو سپریم کورٹ کو اپنی تاریخی پہلو کو سامنے رکھنا پڑے’۔