اسلام آباد (نیوز ڈیسک)مقبوضہ کشمیر پر بھارتی فوج کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم سے ہر کوئی واقف ہے اور موجودہ حکومت اس حوالے سے پوری کوشش کر رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے بے بس لوگوں کی پر ممکن حد تک مدد کی جائے اور عالمی اداروں میں بھی بھارتی مظالم کے خلاف آواز اُٹھائی جائے تاکہ مسئلہ کشمیر پر بھارت پر دباؤ ڈال کر کشمیریوں کو بھارتی مظالم سے نجات دلوائی جا سکے۔مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر موجودہ حکومت کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کالم نگار، صحافی و تجزیہ کار ہارون الرشید نے اپنے حالیہ کالم میں کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگرچہ یہ کہا کہ دونوں
ملکوں کو باہم بات چیت کرنی چاہئیے مگر وہ جانتے ہیں کہ اب آسانی سے یہ ممکن نہیں ۔بروقت شاہ محمود قریشی نے کہہ دیا کہ آر ایس ایس سے مذاکرات نہیں ہو سکتے۔حکومتِ پاکستان اگر چاہے بھی تو پاکستانی قوم ہرگز ہرگز اجازت نہیں دے گی ۔انہوں نے کہا کہ اس باب میں عمران خان عوامی جذبات کو بہرحال زیادہ ملحوظ رکھتے ہیں ۔ یہ نواز شریف کی حکومت نہیں ، جن کے گھر میں آئے دن بھارتی مہمان بلا تکلف آتے اور بعض اوقات ہفتوں قیام کیا کرتے تھے۔ ان میں لندن سے آنے والا ایک ڈاکٹر شامل تھا، جاتی امرا میں جو سیاسی اجلاسوں میں بھی شریک ہوا کرتا تھا۔ہارون الرشید نے لکھا کہ بدقسمتی سے ہماری اجتماعی یاد داشت بہت ناقص ہے ۔ آزاد کشمیر میں 2010ء کی انتخابی مہم کے دوران مظفر آباد میں آنجناب نے اعلان کیا تھا کہ اتنا ظلم بھارت نے کشمیر میں نہیں کیا، جتنا پاکستانی فوج نے ۔ تب بھارتی سفیر نے سید مشاہد حسین سے کہا تھا کہ ہمیں خوشگوار حیرت ہے کہ میاں صاحب نے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران بھارت یا بھارتی فوج کا کوئی ذکر تک نہ کیا۔( We are pleasantly surprised that Mian sahib did not mention India or Indian army in the campaign)۔ جی نہیں ،ذکر تو کیا مگر ہندوستان کے حق میں۔ میاں محمد نواز شریف اُن گنتی کے پاکستانیوں میں سے ایک ہیں ، جنہوں نے بھارتی بالادستی کے امریکی تصور کوپوری طرح قبول کر لیا تھا۔ بھارتی ہندؤوں کے ساتھ شریف خاندان کے تعلقات ایک نہیں ، تین نسلوں پر پھیلے ہیں ۔اس کہانی کا آغاز پچھلی صدی کے دوسرے عشرے میں امرتسر سے ہوا۔ دبئی ، جدّہ ، لندن اور جاتی امرا اس کے مختلف پڑاؤ ہیں۔