اسلام آباد (نیوزڈیسک) پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ یہی جج نوازشریف اور یہی جج زرداری کا کیس سنے، دال میں کچھ تو کالا ہے،ویڈیو میں کتنا سچ ہے کتنا جھوٹ ہے؟ آج اسی جج کو ہٹا دیا گیا،ویڈیو اسکینڈل سوالیہ نشان ہے،سپریم کورٹ کو چھان بین کرنی چاہیے، ادارے غیرمتنازع ہونے چاہئیں ، تاکہ کسی میں جج پر دباؤ ڈالنے کی
ہمت نہ ہو۔ انہوں نے آج یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بہت خوشی ہورہی ہے کہ جب میں ایسے منصوبوں کو پھلتا ہوا دیکھ رہا ہوں ، اس پروگرام کے ذریعے خواتین کو قرضے دیے گئے، لاکھوں خواتین مستفید ہورہی ہیں، ہزاروں گھر بنے ہیں، غریب لوگ اپنے پیروں پر کھڑے ہو رہے ہیں۔ ان کو یورپین یونین بھی تسلیم کرتی ہیں اور پیسا دینے کو بھی تیار ہیں۔ ہمارا فوکس صحت اور مفت علاج ہے۔ جس صوبے میں دل کا مفت علاج نہیں ملتاتھا، آج ہر جگہ میں مفت علاج اور سرجری کی سہولت مل سکتی ہے۔ایس آئی یوٹی میں غریبوں کا علاج کیا جارہا ہے،یہ ایک چیرٹی آرگنائزیشن ہے۔ہماری ڈیمانڈ ڈاکٹرز اور نرسز ہیں، ہم چاہتے ہیں ڈاکٹرزاور نرسز آئیں تاکہ لوگوں کو باعزت نوکریاں مل سکیں۔ یہ سندھ کے نوجوانوں کے مستقل کا بڑا اثاثہ ہوگا۔ہمارا مقابلہ دوسرے صوبوں سے نہیں دوسرے ملکوں سے ہے۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ میں ایشیاء میں سندھ کا چھٹا نمبر ہے۔انہوں نے کہا کہ وفاق صوبوں کا معاشی قتل کررہا ہے۔160بلین کم مل رہا ہے۔ اس کا اثر ہماری معیشت پر پڑا ہے۔ ان حالات میں ہم کام کررہے ہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ آج ہمارا کٹھ پتلیوں، مہنگائی کے
خلاف احتجاج ہے وہاں بھی بات کروں گا۔کوشش جاری ہے کہ الیکشن کو سلیکشن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے امیدوار کی گھوٹکی میں جو انتخابی مہم ہے وہ زبردست ہے۔ گھوٹکی کے عوام نے اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ ان کو پسند نہیں آیا۔ اب سخت دباؤ شروع ہوگیا ہے۔جتنا بھی دباؤ ہوگا جیت پیپلزپارٹی کی ہوگی۔گھوٹکی کی عوام برداشت نہیں کرے گی کہ ان سے آزادی اور جمہوری حق چھینا جائے۔پیپلزپارٹی کی کامیابی یقینی ہے لیکن مخالفین کو برداشت نہیں ۔ الیکشن 2018ء میں سلیکشن ہوئی ، الیکشن متنازع نہیں ہونے چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ادارے کسی ایک کے لیے نہیں ہونے چاہئیں۔جتنے عمران خان کے ادارے ہیں ، اتنے ہی میرے ادارے ہیں، ہمارے اداروں کو متنازع نہیں ہونا چاہیے۔بلاول بھٹو نے کہا کہ آج اسی جج کو ہٹا دیا گیا،سوال پوچھنے پر مجبور ہوں کہ جج صاحب کی ویڈیو میں کتنا سچ ہے کتنا جھوٹ ہے؟ اس لیے ہم کہتے ہیں سپریم کورٹ کو چھان بین کرنی چاہیے۔ یہی جج میاں نوازشریف ، صدر زرداری کا کیس بھی سنے، کچھ تو دال میں کالا ہے۔ یہ ہمارے اداروں کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ ہمیں اداروں کو بچانا چاہیے۔ہم نے سب سے
زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ یہ وہی ادارے ہیں جنہوں نے میرے نانا کوپھانسی دی، اور مجھے میرے نانا اور والدہ کے کیس میں انصاف نہیں دیا۔ ادارے شفاف اور غیرمتنازع ہونے چاہئیں ، تاکہ کسی میں جج پر دباؤ ڈالنے کی ہمت نہ ہو۔