Tuesday November 26, 2024

نوازشریف اور آصف زرداری نےمیری موٹر سائیکل کے ٹائر اور ٹیوب نہیں بدلے ہوں گے

اسلام آباد (سیف اعوان )گزشتہ دنوں میری 125سی جی ہنڈا موٹر بائیک کا پچھلا پہیہ اپنےہچکولوں کی وجہ سے مجھے بے حد پریشان کر رہا تھا۔ سارے منصوبوں کی طرح اس پہیے کی مرمت کروانے کا منصوبہ بھی التوا کا شکار ہو رہا تھا۔ آج ، کل ، چھٹی کےدن، صبح ، شام کرتے کرتے پہیے کے ہچکولےشدت اختیار کر رہے تھے۔ کسی انتہائی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کےلئے ایک روز چار و ناچار میں اسے مکینک کےپاس لے ہی گیااور اسےکہا کہ دونوں پہیوں کی تاریں کس دو۔ مکینک نے،

جو صرف ایک بکسہ نما ڈبا اور پہیہ گھمانے والی مشین لے کر سڑک کی ایک جانب ایک کئی منزلہ عمارت کی چھائوں میں فارغ ہی بیٹھا تھا،دونوں پہیوں کو سرسری دیکھنے کے بعد کہا” سر جی ! دونوں ٹائروں کی تاریں ڈھیلی ہیں،پانچ سو روپےمزدوری بنے گی۔ ” ا س نے بتایا کہ یہ کام آدھے سے پونے گھنٹے میں ہوجائے گا۔ میں نےاسے کام شروع کرنے کو کہا اور خود پاس ہی رکھی ایک بوسیدہ سی کرسی پر بیٹھ کر پاکستانیو ں کے مخصوص انداز میں جمع تفریق کرنا شروع کردی کہ یہ آدمی آدھے پونے گھنٹے میں پانچ سو کماتا ہے تو دن میں دس گھنٹے کام کرکے تو یہ آرام سے آٹھ دس ہزار کما لیتا ہوگا، لیکن کیا اسے ہر آدھے پونے گھنٹے میں کام میسر آتا بھی ہوگا ؟ کچھ بھی ہو، چار سے پانچ ہزار روپے تو کما ہی لیتا ہوگا۔ اور آخر اس کا خرچہ ہی کیا ہے۔ خالی اوزار ہی تو استعمال کرتا ہے۔خود سے کوئی چیز تو ڈالتا نہیں ہوگا، ہاں البتہ تاریں ٹوٹ جانے کی صورت میں یہ نئی تاریں ڈالتا ہوگا۔لیکن وہ بھی کونسا مہنگی ہیں۔ اسے سستی ملتی ہوں گی اور یہ مہنگی لگا کر دیتا ہوگا وغیرہ وغیرہ۔ میں سوچ کی اسی ادھیڑ بن میں غرق تھا اور وہ کام کرنے کے ساتھ ساتھ ہر دو تین منٹ کے بعد مجھے ایک نظر گھور کر دیکھتا تھا۔ اور پھر اپنےکام میں لگ جاتا تھا۔ پھر کام کرتے کرتے اچانک اس نے میری طرف دیکھے بغیر ہی پوچھا ” سر جی ! تاریں کافی زیادہ ڈھیلی ہیں۔ یہ پہیہ پہلی بار کھلا ہے کیا؟” میں نے جواب دیا ” ہاںجب سے لیا ہے ،کبھی کھلوایا نہیںتھا۔لیکن ابھی چونکہ یہ Wobblingکا مسئلہ پیش آرہا ہے اس لیے آج کھلوانا ہی پڑ گیا ہے” اس نے میری طرف دیکھے بغیر ہی پوری بات سنی لیکن کوئی جواب نہیں دیا ۔ اس نے ٹائر اور ٹیوب کو الگ کے رم نکال لیا تھا اور وہ اسے اس مشین پر گھما رہا تھااور ساتھ ہی ساتھ بڑی چابکدستی کے ساتھ ایک اوزار سے ایک ایک تار کو کس رہا تھا۔ رم گھماتے ہوئے وہ اس کے ٹیڑھے ہونے کا بھی جائزہ لے

رہا تھا اور وقفے وقفے سے جہاں سے اسے رم ٹیڑھا لگتا ،وہ ہتھوڑا مار کر اسے برابر کرنے کی کوشش کرتا او ر پھر ایک نظر مجھے گھور کر دیکھتا۔ اس نے پہلے پچھلے اور پھر اگلے پہیے کی تاریں کسیں اور رم بھی برابر کیں۔ اور پھر ٹائر ،ٹیوب اور رم اٹھا کر برابر میں موجود موٹر سائیکلوں کی دوکان میں چلا گیا جہاں غالباً موبائل آئل تبدیل اور ٹیوننگ وغیرہ ہو رہی تھی۔ میں نے دل میںاندازہ لگایا کہ شایدوہ دونوں پہیوں میں ہوا بھرنے گیاہوگا۔میر ا اندازہ درست نکلا۔دو تین منٹ کےبعد وہ دونوں ہوا سے بھرے ٹائر لے کر واپس آگیا۔ اس نے دونوں پہیے موٹر سائیکل کو لگائے، میں نے اسے رقم ادا کی اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔ اس واقعے کے اگلے ہی روز میں شام میں آفس کے لےلئے نکلنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں کہ موٹر سائیکل کا پچھلا پہیہ پنکچر ہے۔ میںپریشان ہوا کیونکہ افطار کا وقت قریب تھا اور اگرپنکچر لگوانے کے چکر میں میں لیٹ ہوجاتا چنانچہ اپنے ایک کزن کے پاس جا کر اسکی موٹر بائیک لی اور آفس نکل گیا۔ اگلے روز شام کو ذرا ٹھیک وقت پر بائیک نکالی اور اسے ایک ٹائر شاپ پر لے جا کر پنکچرلگوایا اور آفس پہنچ گیا۔ رات کو چھٹی ہوتے ہی باہر نکلا تو یہ دیکھ کر چکرا ہی گیا کہ ٹائر پھر پنکچر ہے۔ دل ہی دل میں اس پنکچر والے کو گالیاں دیں کہ شاید اس نے پنکچر مضبوط نہیں لگا یا تھا۔ بائیک کو سٹارٹ کرکے ٹینکی پر ذرا آگے ہو کر بیٹھ کر ایک پٹرول پمپ پر پہنچا اور وہاں پر موجود ٹائر شاپ والے کو پنکچر لگانے کو کہا، اور اس نے ٹائر سے ٹیوب نکال کرپانی میں چیک کرنے کے بعد انکشاف کیا کہ دو پنکچر تھے۔ میں نے پنکچر لگو ا کر اسے ڈیڑھ سو روپے ادا کیے۔ اور ایک دوست کی طرف روانہ ہوگیا۔ لیکن کچھ ہی آگے گیا تھا کہ موٹر سائیکل دوبارہ پنکچرہوگئی۔ اس بار تو میں جھنجھلا ہی گیا ۔شدید غصے اور ذہنی کوفت کے ساتھ دوبارہ کسی نہ کسی طرح اسی پٹرول پمپ کر گیا اور ٹائر شاپ والے کو جاتے ہی سناناشروع کردیں ” یہ کس طرح کےپنکچرلگاتے ہو یا ر تم لوگ۔ ڈیڑھ سوروپےمذاق ہوتے ہیں تم لوگوں کےلئے؟ اتنا تو دیکھ لیا کرو کہ کہیں ٹائر میں کوئی کیل کانٹا تو نہیں لگ گیا۔ یہ کیا یہ دیکھنے کے الگ پیسے ہوتے ہیں “میڈانٹڈپٹ اوراتنی جلدی دوبارہ پنکچر ہونے پر ٹائر شاپ والا بھی بے چارہ گھبرا گیا کہ ایسا ہوا کیسے۔ اس نے ٹائر کھولا ،ٹیوب نکالی او رمجھے بتایا کہ ٹائر اور ٹیوب دونوں ہی انتہائی خستہ حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ دونوں ہی بدلنا ہوں گے۔ اس نے پہلے مجھے ٹیوب دکھائی جس میں کم سے کم دس مقامات پرپنکچر لگے ہوئے تھے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ یہ ٹیو ب میں نے ڈیڑھ دوماہ پہلے خریدی تھی لیکن ماسوائے پچھلے ایک دو دن کے ،ٹائر کبھی پنکچر نہیں ہوا تھا تو اتنے پنکچر کیسے لگ گئے۔ خیر پھراس نے مجھے ٹائر دکھاتے ہوئے بتایا کہ ٹائر کے اندر ربڑ کے چھوٹے چھوٹے چار سے پانچ پیوند لگے ہوئے تھے جوکہ ٹائر کے مکمل طور پر گھس جانے کے بعد اسے کچھ دن کےلئے دوبارہ قابل استعمال بنانے کےلئےلگائے جاتے ہیںلیکن یہ انتہائی

ناپائیدار ہوتے ہیں اور موٹر سائیکل رکھنے والا شخص ان کی وجہ سے ذلیل و خوار ہی ہوتا رہتا ہے۔ اور ایسا عام طور پر وہ لوگ کرواتے ہیں جو بے چارے فی الفور نیا ٹائر خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اس لیے اس عارضی ” ٹوٹکے ” سے چار و نہ چار یہ ذلت و خواری برداشت کرتے ہی رہتے ہیں ۔ مجھے حیرت کاکئی ہزار واٹ کا جھٹکا لگ گیا کیونکہ میں نے اپنی بائیک کے ٹائر میں کبھی ایسی ” پیوندکاری ” کروائی ہی نہیںتھی (اللہ آئندہ بھی ایسا وقت نہ لائے ۔آمین ) ۔ یادداشت پر ذرا سا زور ڈالا تو میرے دماغ میں اچانک ہی سے شک گزرا اور میرے خیالات مجھے اس تاریں کسنے والے مکینک کے ساتھ گزرے وقت اور پیش آئے واقعات کی طرف لے گئے۔ تب سمجھ میں آیا کہ وہ کام کرتے ہوئے باربار مجھے گھور گھورکر کیوں دیکھ رہا تھا۔ یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ اس نے یہ کیوں پوچھا تھا کہ کیا یہ ٹائر پہلی بارکھل رہا ہے؟ اور یہ بھی خوب اچھی طرح سے سمجھ میں آگیا کہ وہ رم ، ٹائر اور ٹیوب اٹھا کر دوکان کے اندر کیوں لے گیا تھا۔ اس بد بخت نے نہ صرف میری موٹر سائیکل کا ٹائر بلکہ ٹیوب دونوں بدل لیے تھے۔اور اس کی جگہ انتہائی گھسے پٹے اور بوسیدہ ٹائر ٹیوب ڈال دیے تھے۔ مکینک وہ شخص ہے جس کی عظمت کو لوگ جھک جھک کر سلام کرتے ہیں کہ وہ کوئی چوری ڈاکہ مارنے یا بھیک مانگنے کی بجائے اپنی محنت اور ہنر سے روزی کماتا ہے۔ لیکن اس طبقے میں ایسے ” ملاوٹ شدہ ” لوگ بھی موجود ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا بھی ملاوٹ ہے۔ میں سوچتا ہی رہا کہ بظاہرغریبی اور محنت کشی کا ڈھونگ رچاکر ہمدردی بٹورنے والے ان ملعونوں کی کمائی بھی جیب تراشوں ، منشیات فروشوں اور جوتے چوروں جیسی ہی حرام ہے۔ ایک چور اچکے اور جیب کترے طبقے سے نکل کر بھلے ہی کوئی آدمی کوئی کام دھندہ ڈھونڈ لے۔ ہیرا پھیری کی عادتیں نہیں جاتیں۔ میں اس نتیجے پر بھی پہنچا کہ واقعی یہ معاشرہ ایسا ہے جہاں ایک گلاس کو زنجیر سے اور ایک پنسل کو دھاگے سے باندھ کر رکھنے کی ضرورت ہے۔بغیر نگرانی اور چوکیدارکے ایک خالی ڈبہ ہی کیوں نہ چھوڑ دیا جائے۔کوئی اسے چرانے میں دیر نہیں کرے گا۔ایسے گھٹیا لوگوں کی ایمانداری بھی اس وقت تک ہے جب تک بے ایمانی کرنے کابال برابر موقع نہیں مل جاتا، اور جب مل جاتا ہے تو اسےچھوڑتا کوئی بھی نہیں ہے۔اس واقعے سے مجھے جو نقصان پہنچا وہ تو شاید انتہائی معمولی تھا لیکن صدمہ انتہائی شدید تھا جس نے مجھے یہ تک سوچنے پر بھی مجبور کیاکہ یہاں سوائے کلمہ طیبہ اور قرآن پاک کے کچھ بھی اصلی اور خالص نہیں۔میں نے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ یہ مکینک نہ تو نوازشریف ہے اور نہ آصف زرداری ۔ لیکن اپنےاختیارات ، موقع اور دائرہ کار میں یہ بھی کرپٹ ہے۔ اس کا دائرہ کار بھی نوازشریف اور آصف زرداری جتنا بڑھا دیا جائے(اگر واقعی وہ دونوں کرپٹ ہیں ) تو شاید یہ ان کا بھی باپ نکلے گا ۔ تو پھرایسے لوگوں سے بھرے ہوئے معاشرے کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ نوازشریف کرپٹ اور زرداری کرپٹ کے نعرے لگاتا پھرے۔ کیونکہ نوازشریف اور زرداری نے کم از کم میری موٹر سائیکل کے ٹائر اورٹیوب تو تبدیل نہیں کیے۔ اس روز میرا پہلی مرتبہ اس قول پر یقین پختہ ہو گیا کہ کوئی کپتان ،کوئی کھلاڑی، کوئی ہینڈ سم، کوئی سونامی ایسے معاشرے میں تبدیلی نہیں لاسکتا جس کی اکائی یعنی افراد ہی کرپٹ اور چور ہوں۔ آخر برے لوگ اپنے اردگرد کے ماحول ،جسے وہ خود بنا تے ہیں،میں اچھائی کی توقع کس منہ سے کرتے ہیں۔میں جا نتا ہوں کہ میں اس مکینک کے پاس جائوںگااور اسے اس کی حرکت کا ازالہ یا سزا بھگتنے کا کہوں گا تو وہ مجھ سےچوری کے الزام کا ثبوت ، گواہ، شواہد مانگے گا۔ پاکستان کے کمزور ، غیر شفاف ،جانبدارانہ ،عدم مساوات اور رشوت ستانی پر مبنی پو لیس اورعدالتی نظام کے باعث فٹ پاتھ پر پڑے ہوئے اس معمولی مکینک کی کرپشن کو ثابت کرنا مشکل ہے تو اربوں کھربوں کی قومی دولت لوٹنے والوں تک پہنچنا بھلا اتنا آسا ن کہاں ہے۔ہمیں یہ شکوہ رہتا ہےکہ محکمے اور ادارے کام نہیں کرتے، حکومتیں کام نہیں کرتیں، عوامی نمائندے کام نہیں کرتے۔ بھلا مجھے بتائیے کہ چور، بددیانت اور کرپٹ ذہنیت کے حامل کے ایک فرد کی اصلاح کا کام کس محکمے، ادارے، وزارت یا رکن اسمبلی کے ذمے لگایا جائے۔طول و عرض میں پھیلے ہوئے اس ملک کے کروڑوں لوگوں میں پھیلی ذہنی کرپشن کا احتساب کون سا نیب کرے گا۔اور میں یہی کہوں گا کہ ہاتھ میں

سمارٹ فون لیے سوشل میڈیا پر تبدیلی کے آنے یا نہ آنے کی جنگ لڑنے، بحث مباحثے اور گالم گلوچ میں الجھنے کی بجائے اپنے آپ اور اپنے ارد گرد موجود لوگوں کے رویوں اور کردار کی جا نچ پڑتال کیجئے کہ کون کتنا تبدیل ہوا ہے۔ ہمارے گھروں ، محلوں اوربازاروں میں موجود ماحول اور برتائومیں کیا بدلائو آیا ہے۔اہل خانہ، محلے دار، دوست، رشتہ دار،پڑوسی ،بڑے، چھوٹے ، اساتذہ، طلبا، جاننے والے دوکاندار، گاہک، مالکان ، ملازمین ،نائی، موچی، بڑھئی کس طرح سے بدلے ہیں۔ کیاکہیںصرف کپڑے اور حلیہ تو تبدیل نہیں ہوگیا۔ کیا پھر تبدیلی کو دوربین یا عینک لگا کر ڈھونڈنے کی کوشش ہورہی ہے یا پھر اسے کوئی جادو ٹونا سمجھا جا رہا ہے ۔درحقیقت جو لوگ ایسے خواب دیکھ کر اپنےملک کو سنوارنا چاہتے ہیں۔ وہ ایسے ممالک سے گھوم کر آئے ہوتے ہیں جہاں نظام کے مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ لوگ بھی باشعور ہیں اور وہاں لوگ نظام کو مضبوط بنانے میں اپنا حصہ بھی ڈالنا چاہتے ہیں۔لیکن یہاں پہلے سے کمزور نظام میں مزید دراڑیں ڈالنے، اس کی بنیادیں ہلانے اور اسے گرادینے کی کوششیں ہی ہورہی ہیں۔

FOLLOW US