Wednesday November 27, 2024

پاکستان کی بحری فوج بھارت کیلئے شارک سے بھی خطرناک ثابت ہوئی ، انتہائی مشکل ترین کام بھارتی آبدوز کا پانی میں کیسے پتہ لگایا ، جان کر بھارتی بھی ششدر رہ گئے

پاکستان کی بحری فوج بھارت کیلئے شارک سے بھی خطرناک ثابت ہوئی ، انتہائی مشکل ترین کام بھارتی آبدوز کا پانی میں کیسے پتہ لگایا ، جان کر بھارتی بھی ششدر رہ گئے

لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک) پاک بحریہ نے اپنے سمندری زون میں موجود بھارتی آبدوز کا سراغ لگاتے ہوئے پاکستانی پانیوں کے داخلے کی کوشش ناکام بنا کر اسے پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ پاک بحریہ کے ترجمان نے کہا کہ بھارت کی یہ ناکامی پاک بحریہ اعلیٰ پیشہ ورانہ مہارتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے، جارحیت کی صورت میں بھرپور جواب دیں گے۔ریٹائرڈ

کموڈور ظفر اقبال نے اس حوالے سے نجی خبر رساں ادارے کیساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آبدوزوں کو عموماً امن کے دوران شاذ و نادر ہی کہیں تعینات کیا جاتا ہے البتہ کشیدگی کے حالات میں انہیں مختلف علاقوں میں انٹیلی جنس معلومات حاصل کرنے اور ضرورت پڑنے پر کسی مشن میں حصہ لینے کی غرض سے تعینات کیا جاتا ہے۔ لیکن پاک بحریہ اپنی پوری سمندری حدود کو نظر میں رکھے ہوتی ہے اور یہ سلسلہ ایک لمحے کے تعطل کے بغیر 24 گھنٹے جاری رہتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس اپنی سمندری حدود کی حفاظت کرنے کی مکمل قابلیت موجود ہے، اس لئے ہی جب بھارتی آبدوزوں نے پاکستانی پانیوں میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ان کا سراغ لگا کر واپس جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ آبدوزوں کا سراغ لگانا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ کنوینشنل آبدوز انتہائی خاموشی سے سفر کرتی ہے جس کی وجہ سے انہیں ”ویپن آف سٹیلتھ“ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا سراغ لگانے کیلئے آوازوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔اس مقصد کیلئے طیارہ فضا سے ”سونو بوائز“ ڈراپ کرتا ہے، جس کے ذریعے سمندری آواز کو سنا جاتا ہے۔ ہر آبدوز کی اپنی مشینری کی وجہ سے مخصوص آواز ہوتی ہے جبکہ بھارت کے پاس موجود آبدوزوں پر ”اینا کوائک“ کوٹنگ ہے جس کی وجہ سے آواز خاصی کم ہوجاتی ہے اور اس کا پتہ چلانا مزید مشکل ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کے سونو بوائز، افسران اور سیلرز اتنی مہارت رکھتے ہیں کہ اس معمولی آواز کو سن کر جان لیتے ہیں کہ یہاں آبدوز موجود ہے۔ریٹائرڈ کموڈور ظفر اقبال نے بتایا کہ آبدوز کا پتا لگانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ جب اسے اپنے انجن چارج کرنے کیلئے ہوا درکار ہوتی ہے تو وہ سمندر کی سطح پر اوپر آتی ہے اور معمولی سا پائپ نکال کر ہوا حاصل کرتی ہے جس سے ڈیزل انجن چلتے ہیں چنانچہ انجن چلنے کی آواز سے بھی اس کا سراغ لگایا جانا ممکن ہے۔اس کے علاوہ آبدوز کی موجودگی معلوم کرنے کا ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ریڈار پر نکلے ہوئے چھوٹے سے پائپ یا انفرا ریڈ سینسر سے اس کو شناخت کیا جاتا ہے جبکہ پاک بحریہ کی جانب سے جاری ہونے والی ویڈیو کو دیکھیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سنارکل کرتے ہوئے انفراریڈ کیمرے کی مدد سے اس کا سراغ لگایا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی پانیوں میں آبدوز کے آنے مطلب ہے کہ وہ انٹیلی جنس معلومات حاصل کررہے تھے تاہم وہ حملہ بھی کرسکتے تھے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آبدوز یہ پتہ لگانے کیلئے بھیجی کہ پاکستان اس کا سراغ لگا سکتا ہے یا نہیں۔ پاکستان کی خصوصی اقتصادی حدود200ناٹیکل میل ہے جبکہ ساحل سے 12 میل تک ریاستی پانی ہوتا ہے جس کے اندر کسی کو داخل ہونے کی قطعی اجازت نہیں ہوتی جس کے بعد 12 سے 25 میل تک ملحقہ علاقہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امن کے دوران اس ملحقہ حدود سے گزرتے ہوئے مطلع کرنا پڑتا ہے لیکن کشیدگی کے وقت اس طرح بغیر بتائے بھارتی آبدوز کے داخل ہونے کی کوشش کا مطلب ہے کہ ان کا ارادہ درست نہیں اور اس صورت میں انہیں نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔

FOLLOW US