Saturday July 27, 2024

کپتان اور کھلاڑیوں کے تشویشناک خبر تحریک انصاف اپنی کن پانچ شخصیات کی وجہ سے شدید خطرات گھر گئی؟؟کون سے بھیانک نتائج سامنے آنے والے ہیں؟؟

الپوری ( مانیٹرنگ ڈیسک) شانگلہ میں حکمراں جماعت تحریک انصاف انتخابات سے پہلے ہی کئی دھڑوں میں تقسیم ہوگئی ، ٹکٹ کے حوالے سے کئی امیدوار سامنے آگئے اور جس نے شدید قسم کے اختلافات جنم دئے ،تحریک انصاف کے نظریاتی کارکن پس پردہ رکھے گئے ، پارٹی کے فیصلوں کے بارے میں ان کو مشاور ت میں شامل نہ کرکے یکسر نظر انداز

کیاگیا- تحریک انصاف کے نوجوان ووٹرز کا صرف اور صرف عمران خان کے وژن کو سپورٹ کرنا ہے – پارٹی میں نئے شامل ہونے والے افراد پارٹی کی لیڈرشپ پر حاوی نظر آرہے ہیں جبکہ پی ٹی ائی کے بانی نظریاتی کارکن مایوسی کے شکار ہے ۔ گزشتہ عام انتخابات کے بعد تحریک انصاف شانگلہ میں ایک مضبوط قوت بن کر ابھری تھی لیکن پارٹی کے اندرونی اختلافات نے اس کی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے،اس وقت پارٹی کی ٹکٹوں کی تقسیم پر شدید اختلافات سامنے آرہے ہیں اور کئی سرکردہ رہنماء پارٹی ٹکٹ کے حصول کیلئے تگ ودو میں مصروف ہیں۔ پارٹی کی لیڈر شپ اکثر شمولیتی تقاریب میں ایک دوسرے کو کھری کھری سنا کر اپنی اختلافات کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ حال ہی پارٹی میں نیا شامل ہونے والا وقار احمد خان اپنے آپ کو قومی اسمبلی کے نشست کیلئے امیدوار تصور کر تے ہیں جنھوں نے مسلم لیگ میں کافی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اپنا ووٹ بینک قائم رکھا تھا اور گزشتہ انتخابات میں مسلم لیگ (نواز) کے صوبائی حلقے کیلئے امیدوار تھے۔اسی کیساتھ ساتھ تحریک انصاف کے گزشتہ انتخابات میں قومی اسمبلی کیلئے امیدوار نواز محمود خان

اس مرتبہ بھی اسی حلقے سے قومی اسمبلی کے نشست سے انتخاب لڑانے کے موڈ میں ہے انھوں نے گزشتہ انتخابات میںکافی ووٹ حاصل کیئے تھے مگر کمپین نہ ہونے کی وجہ سے وہ دیگر اضلاع کی طرح شانگلہ میں تحریک انصاف کا لوہا نہ منوا سکے تاہم اس وقت شانگلہ میں پی ٹی آئی کی یہ مقبولیت نہیں تھی ۔تحریک انصاف اس وقت شانگلہ میں شدید سیاسی بحران کا شکار اسلئے بھی ہے کہ پارٹی کے منتخب نمائندے بھی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں ، بانی اراکین اسلئے بھی نالاں ہیں کہ نئے شامل ہونے والے عبد المنعم کو بطور ضلعی صدر کا انتخاب پارٹی کے کارکنوں کے مشاورت کے بغیر کیا گیاجس کے نتیجہ میں کئی اہم سرکردہ رہنمائوں نے پارٹی سے بغاوت کرکے دوسرے جماعتوں میں شامل ہوئے، گزشتہ انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار جو عبد المنعم کے حریف تھے امداد اللہ درانی نے بھی پارٹی کو خیر اباد کہہ کر مسلم لیگ میں شمولیت کا اعلان کیا ۔ شوکت یوسف زئی کی اکثر شمولیتی تقریبات میں نواز محمود جبکہ وقار احمد کی شمولیتی تقاریب میں حاجی عبد المنعم اور ان کے بھائی عبد المولیٰ

شرکت کرتے ہیں جس سے بھی ان کے درمیانی اختلافات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ، تقاریب میں نواز محمود ، وقار احمد خان ، انجینئر عبد التواب ، رحم زادہ خان کی بروقت شمولیت سے کارکنوں میں بھی سخت بے چھینی پائی جاتی ہے۔تحریک انصاف شانگلہ میں اس وقت ساتھ دھڑوں میں تقسیم نظر آرہی ہے۔ اتنے سارے دھڑہ بندیوں میں ائندہ ان میں سے امیدوارکون ہوگا ۔اکثر کارکنوں کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت صورتحال پر سنجیدگی سے سوچیں اور ٹکٹوں کی تقسیم کو افہام و تفہیم اور اتفاق رائے سے کرنا چاہئے،اگر اختلافات برقرار رہے تو الیکشن میں پی ٹی ائی کو ایک بار پھر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔ شانگلہ میں تحریک انصاف کا ایک خاموش ووٹ بینک موجود ہے مگر قیادت کا فقدان یہ ووٹ کیسے حاصل کرسکیں گے یہ شوکت یوسف زئی ،حاجی عبد المنعم ، وقار احمد خان ، نواز محمود خان ، انجینئر عبد التواب سمیت ناراض بانی رہنمائوں کیلئے ایک چیلنج سے کم نہیں۔

FOLLOW US