Monday January 20, 2025

پولیس فائرنگ میں مارا جانے والا ذیشان دہشتگرد تھا

پولیس فائرنگ میں مارا جانے والا ذیشان دہشتگرد تھا

اسلام آباد (آئی این پی) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو سانحہ ساہیوال پر آئی جی پنجاب نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پولیس فائرنگ کے نتیجے میں مارا جانے والا ذیشان دہشت گرد تھا ابھی پنڈورا باکس نہیں کھولنا چاہتے کہنے کیلئے ہمارے پاس بہت کچھ ہے، واقعہ کا علم ہوتے ہی سی ٹی ڈی افسران کو عہدوں سے فوری طور پر ہٹاتے ہوئے ایف آئی آر درج

کی گئی، کمیٹی ارکان نے آئی جی پنجاب کی بریفنگ پر عدم اطمینان کا اظہار کیاجس پر کمیٹی ارکان اور آئی جی پولیس میں تلخ جملوں کا تبادلہ جھڑپ کی صورت اختیار کرگیا،کمیٹی چیئرمین نے آئی جی پنجاب سے واقعہ کی تفصیلی رپورٹ 30دن میں طلب کرلی،کمیٹی نے واقعہ میں مارے جانے والے خلیل احمد کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری پنجاب حکومت کے سپرد کرنے کی سفارش کر دی،سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ پاکستان کے قانون میں پولیس مقابلوں کا کوئی ذکر نہیں، یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ سانحہ ساہیوال کہیں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آپس میں لڑانے کی سازش تو نہیں،اگر کسی نے یہ سازش کی ہے تو اس کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے۔جمعہ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں وفاقی سیکرٹری داخلہ اعظم سلیمان، آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی سمیت کمیٹی ارکان و دیگر افسران نے شرکت کی۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ کمیٹی کے آج کے ایجنڈے میں تمام نکات کو موخر کر دیا گیا ہے،آج صرف سانحہ ساہیوال پر بات کی جائے گی کیونکہ اس سے اہم کچھ نہیں ہے، کمیٹی نے 41اور 12الگ الگ سوالات بنا کر پہلے ہی پنجاب حکومت اور سیکرٹری داخلہ کو بھجوا رکھے ہیں، اجلاس میں سانحہ ساہیوال میں شہید ہونے والوں کیلئے دعائے مغفرت کی گئی۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ساہیوال کا واقعہ المناک سانحہ ہے، سینیٹ آف پاکستان نے داخلہ کمیٹی کو سانحہ ساہیوال کا اضافی مینڈیٹ دیا ہے اور ایک ہفتہ میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، کمیٹی مستقبل میں ایسے واقعات کے تدارک کیلئے تجاویز تیار کرنا چاہتی ہے، زندہ بچ جانے والے بچوں کی فلاح اور مستقبل کے حوالے سے بھی ہم نے لائحہ عمل دینا ہے۔ انہوں نے

کہا کہ سانحہ ساہیوال کسی فرد کی سازش بھی ہو سکتی ہے تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو آپس میں لڑایا جا سکے، پاکستان کے قانون میں پولیس مقابلوں کا کوئی ذکر نہیں، جب گاڑی روک دی گئی تھی تو پھر گولیاں کیوں چلائی گئیں، محفوط بچ جانے والے بچے گاڑی کی سیٹوں کے نیچے چھپنے کے باعث زندہ رہے۔آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی نے سانحہ ساہیوال پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سانحہ ساہیوال میں ملوث سی ٹی ڈی اے تمام افسران کو او ایس ڈی کر دیا گیا ہے، آپریشن میں ہمارا ٹارگٹ ذیشان تھا جو دہشت گردوں کا ساتھی تھا اور یہ اندازہ تھا کہ اس گاڑی میں سب دہشت گرد ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ سی ٹی ڈی انتہائی خطرناک گروہ کا پیچھا کر رہی تھی، اس خطرناک گروہ کے کچھ دہشت گرد مارے جا چکے ہیں جبکہ کچھ کو گرفتار کرلیا گیا ہے،واقعہ کا معلوم ہوتے ہی تمام متعلقہ اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کیں، ہم اس واقعہ میں مکمل انصاف چاہتے ہیں۔ ایڈیشنل چیف سیکرٹری پنجاب نے کمیٹی کو بتایا کہ ذیشان دہشت گرد گروہ کا حصہ تھا، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ ذیشان دہشت گرد نہیں تھا،سی ٹی ڈی کا ٹارگٹ ذیشان تھا، جے آئی ٹی تمام شواہد ذیشان کے حوالے سے اکٹھے کرے گی۔سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ اگر ذیشان دہشت گرد ہے تو اس کے شواہد کمیٹی میں پیش کئے جائیں ہم نے یہ بھی دیکھنا ہے کہ کہیں قومی اداروں کو آپس میں لڑانے کی سازش تو نہیں کی گئی۔سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ جب بچے گاڑی سے نکالے گئے تھے تو کیا اس وقت فائرنگ کرنا بنتا تھا؟ ہمیں تو اس جے آئی ٹی پر بھی اعتماد نہیں کیونکہ اس میں پولیس افسران شامل ہیں۔ کمیٹی ارکان کی طرف سے سوال پوچھنے پر آئی جی پنجاب غصے میں آ گئے جس پر ارکان اور آئی جی پنجاب میں تلخ کلامی بھی ہوئی، کمیٹی ارکان نے آئی جی پنجاب کی بریفنگ پر عدم اعتماد کا اظہار بھی کیا۔آئی جی پنجاب نے کہا کہ یہ مذاق نہیں انتہائی اہم ایشو ہے، آپ اسے مذاق سمجھ رہے ہیں؟جس پر سینیٹر کلثوم پروین نے کہا کہ ہم مذاق نہیں سمجھ رہے، آپ نے ہم پر مذاق کا الزام کیوں لگایا؟۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہمارے پاس کہنے تو بہت کچھ ہے لیکن ہم پنڈورا باکس نہیں کھولنا چاہتے، جہاں غلطی ہو گی وہاں تسلیم کریں گے۔ سینیٹر رحمان ملک نے آئی جی پنجاب کو واقعہ کی تفصیلی رپورٹ 30دن میں پیش کرنے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ ہم نے پیر کو متاثرہ خاندان سمیت ساہیوال سے رکن قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی طلب کیا ہوا ہے اور ان کے بیانات بھی ریکارڈ کئے جائیں گے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ خلیل کو 13گولیاں مارنا ثابت کرتا ہے کہ یہ سیلف ڈیفنس نہیں تھا،سیلف ڈیفنس میں پولیس کیلئے کچھ ایس او پیز ہوتے ہیں جن کی پیروی کرنا ضروری ہے، پولیس مقابلوں میں ہتھکڑیوں میں بندھے قیدیوں کو بھی مار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ان کو سیلف ڈیفنس میں مارا گیا ہے، چادر و چاردیواری کا تقدس ضروری ہے تاہم اس کے باوجود پولیس گھروں میں گھس جاتی ہے، خلیل کے یتیم بچوں کی کفالت کی ذمہ داری حکومت پنجاب کی ہے۔(

FOLLOW US