جاوید ہاشمی نے بھری عدالت میں چیف جسٹس کا کونسا راز کھول دیا جس کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار نے خود کو کیس سننے کیلئے ڈس کولیفائی قرار دیدیا ؟ آپ بھی جان کر حیران رہ جائیں گے
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اصغر خان عمل درآمد کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما و سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا ہے۔اصغر خان عملدرآمد کیس کی چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ 19 میں سے 17 لوگوں کو نوٹسز جاری کیے ہیں لیکن لوگ راستے بند ہونے کی وجہ نہیں پہنچ سکے ہیں۔اس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ تفتیش بھی آپ نے کرنی ہے اور چالان بھی آپ نے بنانا ہے، آپ بتائیں کہ کیا پیشرفت ہوئی ہے؟ڈی جی ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ وزارت دفاع سے گفت وشنید چل رہی ہے اور وزارت دفاع نے اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی بنائی ہے۔عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے کو 6 ہفتے میں پیشرفت رپورٹ دینے کا حکم دیا۔سماعت کے دوران سینیئر سیاستدان و مسلم لیگ (ن) کے رہنما جاوید ہاشمی بھی عدالت میں موجود تھے اور انہوں نے معزز عدالت کے سامنے بیان
دیا کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی نے لسٹ میں میر انام نہیں دیا لیکن بعد میں مجھے بھی نوٹس جاری کردیا گیا اور مجھے نیب نے سات آٹھ سال پہلے بری کردیا تھا، میرا سارا مقدمہ کلیئر ہوگیا تھا۔انہوں نے کہا کہ میں بیمار آدمی ہوں لیکن سپریم کورٹ کیلئے میرا احترام ہے، سپریم کورٹ کیلئے میرا احترام مجھے ہر سماعت پر یہاں کھینچ لاتا ہے اور میں سپریم کورٹ کے احترام میں لفٹ بھی استعمال نہیں کرتا، جب ہم یہاں پیش ہوتے ہیں تو ساری قوم دیکھتی ہےکہ کچھ کیا ہے تبھی عدالت جارہے ہیں۔جاوید ہاشمی کا کہنا تھا کہ جب بھی نوٹس ہوگا میں عدالت میں ضرور پیش ہوں گا، اس پر چیف جسٹس نے ڈی جی ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ ان لوگوں کے ساتھ عزت و احترام سے بات کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ بشیر میمن صاحب اگر ان لوگوں کیخلاف ثبوت نہیں تو بتادیں جس کے بعد چیف جسٹس نے جاوید ہاشمی کو آئندہ نوٹس جاری نہ کرنے کا حکم دیا۔دوران سماعت جاوید ہاشمی نے چیف جسٹس آف پاکستان سے کہا کہ کیا آپ کو یاد ہے کہ آپ نے میرے ہاتھ چومے تھے اور آنکھوں سے لگائے تھے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ‘ہاشمی صاحب آپ نے بھری عدالت میں آپ کی ذات سے میری عقیدت کا راز کھول دیا لہٰذا اب میں اُصولی طور پر یہ کیس سننے کیلئے ڈس کوالیفائی ہوگیا ہوں۔