اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر ملکی صحافی اور اینکر حامد میر نے اپنے ایک کالم میں بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والوں دھمکیوں کو بھارت کے سیاسی پس منظر اور وزیر اعظم نریندر مودی کی موجود ہ پوزیشن کے تناظر میں انتہائی تشویشناک قرار دے دیا ہے ۔ اپنےایک کالم میں حامد میر نے لکھا ہے کہ جس طرح
بھارت کے ساتھ کرکٹ میچ میں پوری پاکستانی قوم اپنی ٹیم کے پیچھے کھڑی نظر آتی ہے اسی طرح بھارت کی طرف سے جنگ کی دھمکیوں کے بعد قوم کو متحد کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں پارلیمنٹ کو اہم کردار ادا کرنا ہے۔ بھارت کےآرمی چیف نے جنگ کی دھمکی بہت سوچ سمجھ کر دی ہے اور اس دھمکی کے پیچھے بڑے عہدے پر بیٹھا ہوا وہ چھوٹا شخص ہے جو اپنے ذاتی مفاد کو بچانے کے لئے اپنی قوم کے مستقبل کو دائو پر لگانے سے گریز نہیں کرے گا۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو 2019ءکے عام انتخابات میں بہت سی مشکلات نظر آرہی ہیں۔ ایک طرف پٹرول مہنگا کرنے کے باعث انہیں تنقید کا سامنا ہے دوسریطرف وہ پٹرول خریدنے کے لئے ایران کارخ کرتے ہیں تو ٹرمپ ناراض ہوجاتے ہیں۔ تیسری طرف فرانس کے سابق صدر فرانکوئس ہولاندے ان پر ایک عذاب بن کر نازل ہوئے ہیں۔ ہولاندے 2016ء میں فرانس کے صدر تھے،جب مودی نے پیرس میں ایک فرنچ کمپنی ڈزالٹ ایوی ایشن سے8.7ارب ڈالر مالیت کے 36رافائل طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔ ہولاندے نے کچھ دن پہلے ایکانٹرویو میں انکشاف کیا کہ اس سودے سے قبل بھارتی حکومت نے ہمیں پیغام بھجوایا کہ آپ ہمیں یہ طیارے رلائنس ڈیفنس نامی کمپنی کے ذریعہ فروخت کریں جو مودی کے گجراتی دوست انیل امبانی کی ملکیت ہے۔ اس سے قبل انیل امبانی سابق صدر ہولاندے کی پارٹنر جولی گائٹ کی ایک فلم پر پیسہ بھی لگاچکا ہے۔ بھارتی حکومت اور ڈزالٹ ایوی ایشن نے ہولاندے کے ا لزام کی تردید کردیجس کے
بعد بھارتی میڈیا گروپ انڈیا ٹو ڈے نے ہولاندے کا انٹرویو کرنے والے صحافی انیتون روگیٹ سے رابطہ کیااور ہولاندے کے انٹرویو کی تصدیق چاہی۔ روگیٹ نے یہ انٹرویو ایک ویب سائٹ’’میڈیا مارٹ‘‘ کے لئے کیا تھا کیونکہ کوئی بڑا اخبار اور ٹی وی چینل اربوں ڈالر کے اس دفاعی سودے پر خبر لینے کو تیار نہ تھا۔ روگیٹ نے بتایا کہ اس نے ہولاندے سے ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ انٹرویوکیا اور یہ بالکل غلط ہے کہ اتنے بڑے سودے میں بھارتی حکومت کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس اسیکنڈل نے بھارت کی اپوزیشن کو متحد اور حکمراں اتحاد کو منتشر کردیا ہے۔ حکمراں اتحاد میں شامل شیوسینا 2019ء کے انتخابات اکیلے لڑنے کا عندیہ دے چکی ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ جوگی ادتیا ناتھ کو بی جے پی کے اندر کافی مخالفت کا سامنا ہے،وہ بظاہر مودی کے بہت پسندیدہ ہیں ۔لیکن بی جے پی کے اندر ایک لابی انہیں 2019ء میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار بنانا چاہتی ہے۔ بہار میں ا تحادی جماعت جنتا دل یونائٹیڈ کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی وزارت عظمیٰ کے امیدوار ہیں۔ جموں و کشمیر میں بی جے پی کی اتحادی پی ڈی پی بھی رسوا ہوچکی ہے۔ بی جے پی کا اندرونی بحران ا تنا شدید ہے کہ اس سال پارٹی کے اندر انتخابات ملتوی کردئیے گئے اور امیت شاہ کو بغیر انتخاباتکے مزید ایک سال کے لئے پارٹی صدر بنادیا گیا تاکہ وہ پارٹی کے اندر مودی کے خلاف مزاحمت کو روک سکیں۔ یہ وہ مسائل ہیں جن کا مودی کو سامنا ہےاور ان مسائل سے توجہ ہٹانے کے لئے انہوں نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے بجائے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کرلیا ہے اوراگر مودی کے لئے مسائل مزید شدید ہوگئے تو بڑے عہدے پر بیٹھا ہوا چھوٹا شخص کچھ بھی کرسکتا ہے۔دو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کے ایک غیر شفاف اور مشکوک سودے کی کوکھ سے جنم لینے والا اسکینڈل پاک بھارت کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے، مزید کشیدگی، مزید دفاعی سودوں کی راہ ہموار کرے گی، لہٰذا پاکستان کو ہمہ وقت ہوشیار اور خبردار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی کا عام لوگوں کو نقصان لیکن کچھ بڑے سرمایہ داروں کو بہت فائدہ ہوگا