Sunday May 19, 2024

ن لیگ نے آزاد امیدواروں کوحمایت کے بدلے ایسی پیشکش کر دی کہ آزا د امیدواروں کا دل للچانے لگا

لاہور(نیوزڈیسک) عام انتخابات 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف میں واضح برتری حاصل کی جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف وفاق میں حکومت بنانے کجے لیے مضبوط پوزیشن میں ہے البتہ پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اتحاد اور آزاد اُمیدواروں کو پارٹی میں شامل کرنے کی ضرورت

 

ہے۔پنجاب میں حکومت سازی کے لیے آزاد امیدواروں کی کلیدی حیثیت کے بعد سے آزاد امیدواروں نے بہتر پیشکش کا انتظار کرنا شروع کر دیا ہے۔ آزاد اُمیدواروں کی جانب سے کبھی پاکستان تحریک انصاف سے کبھی مسلم لیگ ق سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔ کسی بھی سیاسی جماعت کی حمایت کرنے یا اس سیاسی جماعت میں شامل ہونے کے لیے آزاد اُمیدواروں کو بہتر آفر کا انتظار ہے۔کچھ آزاد امیدواروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے ہی پاکستان تحریک انصاف کی سینئر قیادت سے رابطہ کیا تھا لیکن اب ان کی بات مسلم لیگ ق کے سینئر رہنما پرویزالٰہی سے چل رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ البتہ ن لیگ کی قیادت نے ضرور ان سے رابطے کئے ہیں اور حکومت سازی میں ان کا ساتھ دینے کی رضامندی پر 10سے 12کروڑ یا پنجاب میں اہم وزارت کی پیشکش بھی کی ہے ۔میڈیا ذرائع کے مطابق آزاد اُمیدواروں کا کہنا تھا کہ ن لیگ ممبران اسمبلی کے ساتھ اچھا رویہ رکھنے پر یقین نہیں رکھتی اس لئے ان کی طرف جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جو پیشکش مسلم لیگ ن والے کر رہے ہیں وہ تو دوسری جماعتوں سے بھی مل سکتی ہیں۔ مسلم لیگ ق کے ایک سینئر رہنما نے رابطے پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کیا کہ آزاد ممبران پنجاب اسمبلی کا پرویزالٰہی سے رابطہ ہوا ہے جن کی تعداد 12 ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ چودھریوں کے ساتھ ملنے سے شاید ان کو زیادہ فائدہ ہو کیونکہ ان میں سے بہت سے ممبران براہ راست یا اپنے بڑوں کے ذریعے سے چودھری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پنجاب میں بہتر گورنمنٹ تشکیل دی جا سکتی ہے اگر مسلم لیگ ق کے رہنما پرویزالٰہی اس حکومت کے کمانڈر ہوں۔ آزاد اُمیدواروں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ شاید ہم زیادہ جم کر نہ چل سکیں۔ق لیگ سے رابطہ کرنے والے آزاد امیدواروں کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کو پنجاب میں ایک مضبوط اور تجربہ کار وزیر اعلیٰ کی ضرورت ہے اور اس لحاظ سے پرویزالٰہی ہی بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں ۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ تمام آزاد امیدوار ان کے ساتھ ہوں گے اور ان کی جماعت اپنے وزیر اعلیٰ کے ساتھ حکومت بنائے گی ۔پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بھی یہی کہا ہے کہ پنجاب میں بھی ان کی جماعت اپنی حلیف جماعتوں اور آزاد اُمیدواروں کے ساتھ مل کر مضبوط حکومت بنائے گی۔ بیشتر آزاد اُمیدوار ان سے رابطے میں ہیں اور وہ جلد کسی نتیجے پر پہنچ جائیں گے ۔ میاں محمود الرشید نے بتایا کہ ان سمیت دیگر سینئر قیادت نو منتخب آزاد اُمیدواران سے رابطے میں ہے اور اُمید ہے کہ ان کے ساتھ معاملات جلد طے پا جائیں گے ۔وزارت اعلیٰ کے اُمیدواروں کے لئے تین نام گردش کررہے جن میں علیم خان بھی شامل تھے لیکن قیادت کا کہنا ہے کہ علیم خان کی نیب میں انکوائری کی وجہ سے ان کو کوئی ذمہ داری نہیں دی جائے گی۔ دوسرے دو ناموں محمود الرشید اور فواد چوہدری شامل ہیں لیکن فی الوقت حتمی نام کا فیصلہ نہیں ہوا۔ پارٹی ذرائع نے بتایا کہ جنوبی پنجاب کے دھڑے کی کوشش ہے کہ وزیر اعلیٰ جنوبی پنجاب ، شمالی پنجاب والوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعلی ٰکا اُمیدوار ان کا ہو ۔لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم لیگ ن کے رہنما حمزہ شہباز نے گذشتہ روز اعلان کیا کہ پنجاب میں مسلم لیگ ن کی اکثریت ہے لہٰذا مسلم لیگ ن ہی پنجاب میں حکومت بنائے گی اور اگر روکا گیا تو اس بھرپور جواب دیا جائے گا۔ پاکستان تحریک انصاف کے پاس پنجاب اسمبلی کی کُل 122 نشستیں ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کے پاس پنجاب اسمبلی کی 127 نشستیں ہیں۔اس صورتحال

 

میں مسلم لیگ ن پاکستان تحریک انصاف کے مقابلے میں 10 نشستوں پر برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔ پنجاب میں حکومت کے قیام کو یقینی بنانے اور پنجاب اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کے لیے پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن نے مسلم لیگ ق سے رابطے شروع کر دئے ہیں۔ عام انتخابات میں پنجاب سے مسلم لیگ ق نے 7 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ پنجاب اسمبلی کی 27 نشستوں پر آزاد اُمیدواروں نے کامیابی حاصل کی، ان کامیاب آزاد اُمیدواروں میں سے متعدد مسلم لیگ ق کے ہم خیال ہیں ، اور یہی وجہ ہے کہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن نے مسلم لیگ ق سے بھی روابط شروع کر دئے ہیں۔پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ دونوں جماعتیں ہی پنجاب میں حکومت بنانے کی خواہشمند ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ق اور آزاد اُمیدواران کس جمات کا ساتھ دیتے ہیں۔

FOLLOW US