نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہےکہ شفاف الیکشن چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان یا جیل کاٹنے والے پارٹی کے سیکڑوں ارکان کے بغیر بھی ہوسکتے ہیں۔ امریکی خبر رساں ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ جیل کاٹنے والے پی ٹی آئی ارکان توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھے ، پی ٹی آئی میں شامل ہزاروں افراد جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں وہ الیکشن میں حصہ لے سکیں گے۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ میں عمران خان سمیت کسی سیاست دان سے ذاتی انتقام پر عمل پیرا نہیں، اگر کوئی قانون شکنی پر گرفت میں آیا ہے تو قانون کی بالادستی یقینی بنائیں گے، انتخابات فوج یا نگران حکومت نے نہیں الیکشن کمیشن نےکرانے ہیں۔ نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ امید ہے عام انتخابات نئے سال میں ہوں گے، پی ٹی آئی کو جیتنے سے روکنےکے لیے انتخابات میں فوج کی جانب سے دھاندلی کی بات بیہودہ ہے، چیف الیکشن کمشنرکا تقرر چیئرمین پی ٹی آئی نے بطور وزیراعظم کیا تھا، چیف الیکشن کمشنر عمران خان کے خلاف کیوں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی یا کسی بھی سیاست دان کی جانب سے قانون کی خلاف ورزی پر قانون کی بحالی یقینی بنائی جائےگی، الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی وفاقی حکومت ہر طرح کا تعاون کرےگی، عدلیہ کے فیصلوں میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کروں گا، عدلیہ کو کسی بھی سیاسی مقصد کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ فوج سے قریبی تعلق کی بات سیاست کا حصہ ہے، اس پر توجہ نہیں دیتا، فوج اور وفاقی حکومت کے درمیان تعلق بہت ہموار،کھلا اور شفاف ہے، ہمیں سول ملٹری تعلقات کے چیلنج کا سامنا رہتا ہے جس سے انکار نہیں، سول ملٹری تعلقات کے چیلنجز کی مختلف وجوہات ہیں،کئی دہائیوں کے دوران سول اداروں کی کارکردگی خراب ہوئی ہے، اس کا حل سویلین اداروں کی کارکردگی کو بتدریج بہتر بنانا ہے۔ انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں، کشمیری بھارت کی بنائی ہوئی بڑی جیل میں رہ رہے ہیں، کشمیریوں کے پاس کوئی سیاسی حق نہیں ہے، دنیاکی توجہ یوکرین پر ہے لیکن ایک تنازع کشمیر بھی ہے، کشمیر اگریورپ یا امریکا میں ہوتا تو کیا تب بھی اس کے حل کے لیے ایسا ہی بےحس رویہ ہوتا؟ اس تنازع کے اہم کردار کشمیری عوام ہیں،کشمیری عوام کو اپنی شناخت و مستقبل کا فیصلہ کرنا ہے۔
افغانستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس طرف سے کچھ سنگین سکیورٹی مسائل ہیں، کابل میں طالبان حکام سے رابطے میں ہیں لیکن ابھی کوئی پیش رفت نہیں، علاقائی رہنما طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کرانے پر تبادلہ خیال کر رہےہیں، علاقائی فورم کو متفقہ نقطہ نظر اور وسیع تر اتفاق رائے قائم کرکے طالبان تک پہنچانا چاہیے۔