Sunday November 24, 2024

ڈالر 250 روپے کا ہے، ہر صورت اسی سطح پر لائیں ، اعلیٰ عہدیدار کا منی چینجرز کو واضح پیغام ، جواب سنے بغیر وہاں سے روانہ

اسلام آباد : سینئر صحافی کامران یوسف نے دعویٰ کیا ہے کہ منی چینجرز کو اعلیٰ عہدیدار نے واضح پیغام دیدیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے حساب سے ڈالر کی قیمت 250 روپے ہے اور ہر صورت اس سطح پر لائیں لیکن جواب سنے بغیر اپنا موقف پیش کرکے وہاں سے وہ عہدیدار روانہ ہوگئے ۔ اپنے ایک ولاگ میں کامران یوسف نے بتایا کہ 5 ستمبر کو ڈالر کی قیمت اپنے عروج پر تھی ، اس کے بعد انتظامی اقدامات کیے گئے تو ڈالر نیچے آنا شروع ہوگیا، ایک طرف یہ اقدامات ہوئے تو دوسری طرف پاکستان کے نامی گرامی منی چینجرز کو اسلام آباد میں ایک میٹنگ کے لیے بلایاگیا، ماضی میں بھی ایسی میٹنگز ہوتی رہیں، منی چینجرز کا خیال تھا کہ میٹنگ زبردست رہے گی ، ہم اپنی تجاویز دیں گے لیکن اس میٹنگ میں جب تمام شرکاء پہنچ گئے تو آخر میں وہ صاحب بھی آگئے جنہوں نے یہ میٹنگ بلائی تھی ۔

کامران یوسف کاکہناتھاکہ یہ میٹنگ صرف دو منٹ پر محیط رہی ، میزبان نے سلام کرنے کے بعد ’’بتایاکہ آپ کو اس لیے بلایا ہے کیونکہ ڈالر کی اصل قیمت جو ہم نے کلکولیٹ کیا ہے ، وہ 250 روپے ہے اور ہمیں ڈالر کی قیمت 250 روپے چاہیے ، اگر اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا تو آپ نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے ‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ یہ پیغام دے کر وہ جو ایک اہم اہلکار تھے، وہ میٹنگ سے بغیر منی چینجرز کے نمائندوں کی بات سنے، وہاں سے نکل گئے اور وہاں موجود شرکا ایک دوسرے کی طرف ہکا بکا دیکھتے رہ گئے کیونکہ ان کا خٰیال تھا کہ میٹنگ لمبی چوڑی چلے گی ، کچھ سنیں گے اور کچھ سنائیں گے ‘۔ صحافی کامزید کہناتھاکہ ’ اس کے بعد منی چینچرز نمائندگان نے میٹنگ کے منتظمین سے درخواست کی کہ یہ کیسی میٹنگ تھی، پیغام دینے کی بات ٹھیک ہے لیکن ہماری بات تو سن لیتے ، اس کے بعد وہ منتظمین دوبارہ ان صاحب کے پاس گئے کہ منی چینجرز کے کچھ نمائندے آپ سے ملنا چاہتے ہیں کہ بات تو سن لیں، آگے سے نفی میں جواب آیا اور واضح کیا گیا کہ جو پیغام انہیں دینا تھا، وہ دیدیا گیا، باقی اگر عمل نہیں ہوتا تو نتائج کے وہ خود ذمہ دار ہیں‘۔

کامران یوسف نے بتایا کہ پاکستان کو ہمیشہ سے ڈالر کی کمی کا سامنا رہا ہے اور ملکی برآمدات پر خاص توجہ نہیں دی گئی۔ ملک میں سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول نہیں بنایا گیا۔ لیکن اس کمی کا ایک فیکٹر پاکستان میں ڈالر کی ذخیرہ اندوزی کرنے والا مافیا بھی ہے، چاہے وہ منی ایکسچینجرز ہوں یا پھر مارکیٹ میں موجود ایسے لوگ جو ڈالر کو منافع اور کاروبار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں روپیہ بے قدری کا شکار ہے وہاں اگر آپ آج ڈالر خریدیں اور 4 ماہ بعد فروخت کریں تو منافع ضرور ہو گا۔ پاکستان میں زیادہ تر لوگ جو محفوظ سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ یا تو پراپرٹی میں پیسہ لگاتے ہیں، یا سونا خریدتے ہیں۔ اس کے علاوہ لوگ ڈالر بھی خریدتے ہیں اور اسے ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ ڈالر کو پاکستان میں منافع بخش کاروبار کے طور پر دیکھا جاتا ہے کیونکہ روپے کی قدر میں کمی آتی رہتی ہے۔ طلب اور رسد کا مسئلہ تو تھا ہی لیکن روپے کی قدر میں آنے والی گراوٹ میں مارکیٹ میں بیٹھے ان ‘پلیئرز’ کا بھی ہاتھ رہا ہے۔

5 ستمبر کو جب اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک میں ڈالر کی قدر آسمان کو چُھونے لگی تو اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کچھ سخت اقدامات لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ کچھ انتظامی تبدیلیاں کی گئیں۔ خصوصی طور پر جو لوگ منی چینجرز مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کر رہے تھے ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا۔ اس کے علاوہ ڈالرز کی سمگلنگ بھی روپے کی بے قدری کی بہت بڑی وجہ ہے۔ افغانستان میں ڈالر کی فراوانی نہیں ہے اور پابندی ہونے کی وجہ سے صرف انسانی حقوق کی بنیادوں پر ملنے والی امداد کے علاوہ انہیں ڈالرز نہیں ملتے تو وہ اپنی ڈالرز کی کمی پاکستان سے پوری کرتے ہیں، ایک محتاط اندازے کے مطابق روزانہ 5 بلین ڈالرز افغانستان سمگل کیے جا رہے تھے۔ڈالر کی سمگلنگ کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا گیا جس سے ڈالر کی قیمت میں مسلسل گراوٹ دیکھنے میں آ رہی ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور میٹنگ بھی ہوئی جس میں اندازہ لگایا گیا کہ حقیقی ایکسچینج ریٹ 250 روپے ہونا چاہئیے۔ جب کریک ڈاؤن شروع کیا گیا تو اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 333 روپے سے گر کر بتدریج 296 روپے تک آ گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ڈالر واقعی 250 روپے کا ہے اور اس ریٹ پر واپس آ جائے گا؟ میرا خیال ہے ڈالر کو 250 روپے تک لانا ممکن نہیں ہے کیونکہ اس کے لیے کچھ بنیادی معاشی اعشاریوں کو ٹھیک کرنا ناگزیر ہے، روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر اگر 280 روپے تک بھی آ جاتی ہے تو یہ بھی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ اگر روپے کی قدر کچھ مستحکم ہوئی تو ممکن ہے کہ نگران حکومت کی جانب سے عوام کو پٹرول یا بجلی کی قیمت میں کچھ ریلیف بھی ملے۔

FOLLOW US