اسلام آباد : وزیراعظم عمران خان نے حال ہی میں غیر ملکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیا جس میں انہوں نے بیان دیا تھا کہ عورت مختصر کپڑے پہنے گی تو مردوں پر اثر پڑے گا۔ وزیراعظم عمران خان کے اس بیان پر انہیں اپوزیشن سمیت کئی خواتین نے بھی ہدف تنقید بنایا اور کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے یہ بات کہہ کر ہماری دل آزاری کی ہے، انہوں نے جنسی ہوس کو خوتاین کے کپڑوں سے منسوب کر دیا ہے جبکہ ملک میں کم سن بچیوں کے ساتھ بھی جنسی استحصال کے واقعات ہو رہے ہیں، ایسے میں کیا بچیاں بھی مختصر کپڑے پہنتی ہیں؟ تاہم اب وزیراعظم عمران خان کے اس انٹرویو کا وہ حصہ سامنے آ گیا ہے جو غیر ملکی ٹی وی نے نشر ہی نہیں کیا۔
سیاست ڈاٹ پی کے نامی ویب سائٹ نے وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کے سیاق و سباق پر مبنی غیر ایڈٹ شدہ ایک ویڈیو کلپ شئیر کیا جس میں اینکر نے وزیراعظم عمران خان سے سوال کیا کہ آپ نے کہا تھا کہ اگر آپ عریانیت کو فروغ دیں گے تو اس سے اس قسم کے واقعات میں اضافہ ہو گا، آپ نے جو گفتگو کی اس پر بڑا رد عمل آیا، اس کا جواب کیسے دیں گے ؟ جس پر وزیراعظم عمران خان نے جواباً کہا کہ یہ بالکل غلط ہے۔ میں جو کہنا چاہتا تھا وہ یہ تھا کہ یہ جُرم بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جب میں وزیراعظم بنا تو میں نے پولیس سربراہوں کو بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ کون سا جُرم سب سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے ؟انہوں نے مجھے بتایا کہ جنسی تشدد سب سے زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ جنسی تشدد میں صرف ریپ شامل نہیں ہے۔ اس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی بھی شامل ہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کا سُن کر مجھے بے حد دُکھ ہوا۔ اس میں تکلیف دہ امر یہ تھا کہ صرف ایک فیصد ایسے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔جب کسی بچے کے ساتھ ایسا واقعہ رونما ہوتا ہے یعنی کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو ان کی فیملی شرم کی وجہ سے ایسے واقعات رپورٹ ہی نہیں کرتی۔ لہٰذا میں جو کہہ رہا تھا وہ یہ تھا کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف ایک فیصد مجرموں تک پہنچ پاتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں ایسے جرائم کا سامنا پورے معاشرے نے کرنا ہوتا ہے۔ سوسائٹی ایسے جرائم کا مقابلہ آگاہی سے کر سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں نے کبھی حجاب کا نہیں کہا، میں نے پردے کے تصور کی بات کی تھی، میں نے مزید کہا کہ نائٹ کلبز جیسی چیزیں ہمارے ہاں نہیں ہیں،مغربی معاشرے کی طرح ہمارے ہاں ایسے مقامات نہیں ہیں جہاں لڑکے لڑکیاں آپس میں میل جول کر سکیں،اسی لیے ہمارا معاشرہ اور طرز زندگی مغرب سے بالکل مختلف ہے۔ ایسے معاشرے میں اگر آپ عریانیت کو فروغ دیں گےاور پھر نوجوان لڑکوں کے پاس کوئی ایسی جگہ بھی نہ ہو جہاں جا کر وہ اپنے جذبات کا اظہار کر سکیں تو اس کے خطرناک نتائج نکلیں گے۔ اس سے معاشرے میں جرائم میں اضافہ ہو گا جو ہمارے کرائم چارٹ سے بھی واضح ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ جنسی تشدد کے واقعات کو روکنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ قانون نافذ کر کے ان کو روکا جائے۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر واقعات، زیادہ تر سے میری مراد ہے کہ پولیس کے مطابق جنسی تشدد کے 99 فیصد واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوتے اسی لیے پورے معاشرے کے یعنی عوام ، اسکولز ، اُساتذہ ، میڈیا وغیرہ سب کو اس میں کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ اسی طرح ہم عوام میں آگاہی پیدا کر سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اسی لیے میں نے پردے کے تصور کی بات کی تھی۔
اور مجھے یاد ہے کہ میں نے کیا کہا تھا۔ میں نے پردے کی تصور کی بات کی تھی،پردے کا مطلب ہے کہ ہوس سے بچا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پردہ صرف منہ ڈھانپنا نہیں بلکہ معاشرے میں عریانیت کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔ اینکر نے وزیراعظم سے سوال کیا کہ پاکستان میں آپ کے خیال میں عریانیت کی کون کون سے قسمیں ہیں جو ختم کرنے کی ضرورت ہے؟ جس پر وزیراعظم عمران خان نے جواب دیا کہ اس کا ایک اہم ذریعہ تو موبائل فونز ہیں، آج کل موبائل فونز پر جو مواد دستیاب ہے، نو عمر بچوں یا لڑکیوں کو انسانی تاریخ میں اس قسم کے مواد تک کبھی رسائی حاصل نہیں تھی۔ اسی لیے میں نے کہا کہ پوری سوسائٹی کو اس لعنت سے لڑنا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے انٹرویو کا یہ حصہ آپ بھی ملاحظہ کیجئیے: