Wednesday November 27, 2024

پیپلزپارٹی اور اے این پی کا پی ڈی ایم کی بجائے نیا سیاسی اتحاد بنانے کا امکان

اسلام آباد : پاکستان پیپلزپارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے پی ڈی ایم کی بجائے نیا سیاسی اتحاد بنانے کا امکان ظاہر کردیا گیا۔میڈیا ذرائع کے مطابق پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے پی پی پی اور اے این پی کو پی ڈی ایم میں شامل نہ کرنے کے فیصلے کے بعد دونوں جماعتوں نے بھی اہم فیصلہ کرلیا ، جس کے تحت اے این پی اور پی پی پی نے پی ڈی ایم کی بجائے نیا سیاسی اتحاد بنانے کا امکان ظاہر کیا ہے ، ممکنہ نئے سیاسی اتحاد سے متعلق پیپلزپارٹی اور اے این پی کی قیادت میں اہم پیشرفت آج متوقع ہے۔ بتایا گیا ہے کہ پی ڈی ایم سے علیحدگی کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری اور چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو کی جانب سے اے این پی سے رابطہ کیا گیا ،

جس میں بلاول بھٹو زرداری اور ایمل ولی خان کے مابین نئے سیاسی اتحاد پر اصولی اتفاق ہوچکا ہے اور امکان ہے کہ بلاول بھٹو زرداری آج پیپلزپارٹی کے وفد کے ہمراہ چارسدہ کا دورہ کریں گے ، جہاں بلاول بھٹو بیگم نسیم ولی خان کی وفات پر اے این پی قیادت سےاظہارتعزیت کریں گے جس کے بعد چیئرمین پیپلزپارٹی اور اے این پی کی اعلیٰ قیادت کے مابین اہم ملاقات بھی ہوگی، جس میں مستقبل کے سیاسی لائحہ عمل پر غور کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ پی ڈی ایم نے پیپلزپارٹی اور اے این پی کو اپوزیشن اتحاد سے الگ کردیا، صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پی ڈی ایم اجلاس میں دونوں جماعتوں سے متعلق مشاورت نہیں ہوئی، مطلب وہ ہمارے ساتھ نہیں اس لیے غور نہیں کیا گیا، وہ واپس آنا چاہیں تو ان کے پاس مہلت ہے ، تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن سیکرٹریٹ میں پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس ہوا، اجلاس میں جماعتوں کے سربراہان شریک ہوئے، نوازشریف، اخترمینگل ودیگر سربراہان ویڈیولنک پر موجود تھے۔ اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ میں صدر پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ خطے کی صورتحال تشویشناک ہوتی چلی جارہی ہے کیونکہ ہماری حکومت عوامی منتخب حکومت نہیں ہے، جس حکومت کو عوامی تائید حاصل نہ ہو، وہ کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، پی ڈی ایم نے مطالبہ کیا کہ افغانستان اور خطے کی صورتحال پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے ، دفاعی یا خارجہ پالیسی پر ان کیمرہ اجلاس میں متعلقہ ادارے عوام کو حقائق سے آگاہ کریں ، افغانستان میں دوحہ معاہدہ اور بعد کی پیشرفت ، نئی امریکی انتظامیہ کی ترجیحات پر آگاہ کیا جائے ، ان افواہوں پر کہ پاکستان امریکی طیاروں کو ایئربیسز مہیا کرے گی، اس سے پاکستان پر تعزیراتی اور سیاسی اثرات مرتب ہوں گے، افغانستان کی مزاحمتی قوت کے ردعمل میں پاکستان کن مشکلات سیت دوچار ہوسکتا ہے؟ اس پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیا جائے۔

FOLLOW US