اسلام آباد : سینئیر صحافی و کالم نگار حامد میر نے کہا کہ اس وقت قومی اسمبلی کے چار اراکین قید میں ہیں۔ جاوید لطیف اور علی وزیر کے علاوہ سید خورشید شاہ اور خواجہ محمد آصف بھی پاکستان کی ہائی برڈ حکومت کے قیدی ہیں۔ سید خورشید شاہ اور خواجہ محمد آصف پر آمدن سے زیادہ اثاثوں کا مقدمہ ہے لیکن جاوید لطیف اور علی وزیر پر ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے کا الزام ہے۔ اس سے قبل رانا ثناء ﷲ کو منشیات فروشی کے الزام میں گرفتار کیا گیا لیکن عدالت میں کچھ ثابت نہ ہو سکا۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف پچھلے تین سال میں دو دفعہ گرفتار ہو چکے ہیں اور تیسری مرتبہ انہیں گرفتار کرنے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ اپنے حالیہ کالم میں حامد میر کا کہنا تھا کہ ہائی برڈ حکومت کا دعویٰ ہے کہ کرپشن کے خلاف اپنی جنگ جاری رہے گی اور عمران خان اصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں کریں گے لیکن جب جہانگیر ترین کا معاملہ آتا ہے تو سب اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔
جہانگیر ترین پر ہاتھ ڈالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ شاید وزیراعظم عمران خان کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ ان کا احتساب کا بیانیہ ناکام ہو چکا ہے اور اسی لیے وہ اوپر تلے ضمنی انتخابات میں شکست کا سامنا کر رہے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنے بیانیے کی عزت بچانے کے لیے راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل میں کچھ سرکاری افسران کو قربانی کا بکرا بنایا ۔ خان صاحب بھول رہے ہیں کہ احتساب کے نام پر انتقام کے بیانیے پر زیادہ عرصہ تک ووٹ نہیں مل سکتے۔ ان کا خیال ہے کہ انہوں نے شہباز شریف کو بیرون ملک جانے سے روک کر کرپشن کے خلاف جنگ جیت لی ہے حالانکہ اس معاملے میں حکومت شہباز شریف سے ڈری ڈری اور سہمی سہمی سی نظر آتی ہے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ فرض کریں کہ شہباز شریف چلے جاتے اور پھر نواز شریف کی طرح واپس نہ آتے تو حکومت کو نقصان نہیں فائدہ ہوتا۔ شہباز شریف کو روک کر حکومت نقصان میں نظر آتی ہے۔ ایک طرف اپوزیشن کے خلاف حکومت کا انتقامی رویہ پاکستان میں داخلی انتشار پھیلا رہا ہے اور دوسری طرف خطے میں بدلتی ہوئی صورتحال پاکستان کیلئے خارجی مسائل میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔