Thursday November 28, 2024

کراچی اورلاہورکے باسیوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی ،ملک کے 2بڑے شہروں نے کس فہرست میں جگہ بنالی ،جانیں گے توپریشان ہوجائیں گے

لاہور(ویب ڈیسک )دنیامیں فضائی آلودگی، آب و ہوا کی تبدیلی، شدید گرمی کی لہر، پانی کی قلت سمیت دیگر ماحولیاتی خطروں کا بڑے پیمانے پر سامنا کرنے والے 100 بڑے شہروں میں سے 99 جنوبی ایشیائی خطے میں واقع ہیں۔ گو ایسے شہروں کی زیادہ تعداد بھارت اور چین میں ہے، پاکستان کے دو گنجان آباد شہر لاہور اور کراچی بھی ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہیں۔ حال ہی میں جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں 400 سے زیادہ ایسے شہر موجود ہیں، جو فضائی اور زمینی آلودگی اور اس سے منسلک مسائل کے اس دائرے میں آتے ہیں جنہیں ماہرین ‘انتہائی خطرناک’ قرار دیتے ہیں۔

ان شہروں کی مجموعی آبادی ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہے۔ گویا دنیا کی ایک چوتھائی سے زیادہ آبادی ایک ایسے خطرے کا سامنا کر رہی ہے جو ان کی زندگیاں نگلنے اور اوسط عمر میں کمی کا سبب بن سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس خطرے کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف ہوا کی آلودگی دنیا بھر میں ہر سال 70 لاکھ سے زیادہ افراد کی قبل از وقت اموات کا سبب بنتی ہے۔ انتہائی خطرے کی اس فہرست میں سب سے اوپر انڈونیشیا کے شہر جکارتہ کا نام ہے۔ یہ گنجان آباد شہر بڑے پیمانے پر فضائی آلودگی، شدید گرمی کی لہروں اور سیلابوں کا مسلسل نشانہ بنا ہوا ہے۔ اس فہرست میں شامل پہلے دس شہروں میں انڈونیشیا کے دو اور شہر بھی ہیں جن میں ‘سروبایا ‘چوتھے جب کہ ‘بانڈانگ’ آٹھویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کو بھی اس خطرے کا اتنا ہی سامنا ہے جتنا کہ انڈونیشیا کو۔ اس کے دو سب سے بڑے شہر 100 ملکوں کی آلودگی کی عالمی فہرست میں اونچے درجوں پر ہیں۔ ان میں کراچی 12 ویں جب کہ لاہور 15 ویں نمبر پر ہے۔ آلودگی اور دیگر ماحولیاتی خطرات کی شدید زد میں آنے والے پہلے 20 شہروں میں سے 13 کا تعلق بھارت سے ہے۔ رپورٹ کے مرکزی مصنف ول نکولس نے اے ایف پی کو بتایا کہ دنیا کے 576 بڑے شہروں کی فہرست میں بھارت کے جو 13 شہر شامل ہیں، ان میں دہلی دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کے بعد چنائی ہے جو عالمی فہرست میں تیسرے درجے پر ہے۔ اس کے بعد آگرہ چھٹے، کانپور بارہویں، جے پور بائیسویں اور لکھنئو چوبیسویں نمبر پر ہے۔ سوا کروڑ آبادی کا شہر کلکتہ اس عالمی فہرست میں 27ویں درجے پر ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان آلودہ شہروں کی 33 کروڑ 60 لاکھ سے زیادہ آبادی کو آلودگی سے شدید خطرہ ہے، جن میں سے 28 کروڑ 60 لاکھ کے لگ بھگ افراد چین اور بھارت میں رہتے ہیں۔ ایشیا سے باہر جن ملکوں کو فضائی اور زمینی آلودگی سے خطرہ ہے وہ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں واقع ہیں۔ لیکن ان ملکوں میں صرف ایک شہر ایسا ہے جو آلودگی سے شدید متاثرہ 100 شہروں کی عالمی فہرست میں آتا ہے اور وہ ہے لیما۔ اپنی رپورٹ کی وضاحت کرتے ہوئے نکولس کا کہنا تھا کہ دنیا کی تقریباً نصف آبادی کا مسکن ایشیا ہے اور اس کا زیادہ تر حصہ دو ملکوں چین اور بھارت میں رہتا ہے۔

یہ خطہ دنیا بھر کے لیے دولت پیدا کر رہا ہے اور اس کی معاشی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مگر ترقی کے نتیجے میں ان کے شہروں پر آبادی کے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے جس سے آلودگی اور شہری وسائل پر بوجھ بڑھ رہا ہے اور انسانی صحت کے لیے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ان دونوں ملکوں میں توانائی کے حصول کے لیے بڑے پیمانے پر کوئلہ جلایا جاتا ہے جس سے پیدا ہونے والا دھواں، زہریلی گیسیں اور دیگر مضر صحت ذرات ہوا کو آلودہ کر رہے ہیں۔ نکولس کا کہنا ہے کہ اگرچہ چین اور بھارت دونوں کے لیے آلودگی ایک سنگین مسئلہ ہے، لیکن بھارت کے لیے اس مسئلے کی سنگینی چین کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔چین میں درمیانہ طبقے اور اس کی آمدنیوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان میں اپنے مسائل کے حل کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنے کی طاقت اور شعور زیادہ ہے اور حکومت بھی زیادہ با اختیار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں کوئلے سے چلنے والے کارخانوں کو بند کیا جا رہا ہے اور آلودگی پر قابو پانے کے لیے سخت قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں جب کہ بھارت میں یہ صورت حال نہیں ہے۔نکولس کہتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں چین میں آلودگی کی سطح میں کمی آ سکتی ہے جب کہ بھارت کو عرصے تک اس مسئلے کا سامنا رہے گا۔

FOLLOW US