اسلام آباد:معروف تجزیہ کار، اینکر پرسن اور سینئر صحافی حامد میر نے کہا ہے کہ پاک سعودی تعلقات ’بیک ٹریک‘پر آ گئے ہیں تاہم دونوں ملکوں کے درمیان پہلے جیسی گرم جوشی تو نہیں لیکن برف پگھل چکی ہے،پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ قبول نہیں کیا لیکن لگتا ہے کہ پاکستان نے یمن کے معاملے میں ریویو کیا ہے،بھارت کے ساتھ فروری میں ہونے والا سیز فائر معاہدہ اور بیک ڈور رابطے بیرونی دباؤ پر شروع ہوئے جبکہ سعودی عرب نے بھی وعدہ کیا ہے کہ وہ دنوں ملکوں کے تعلقات بہتر کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا ،پاک سعودی تعلقات میں بہتری کی ’قیمت‘ کیا ہے؟یہ ابھی نہیں پتا لیکن پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بٖغیر خطے کی خارجہ پالیسی میں کو ئی بہت بڑی تبدیلی کی گئی تو اس کا فائدے کی بجائے نقصان ہو گا ،ہندوستان اپنی ڈبل گیم کے ذریعے پاکستان اور کشمیری قیادت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔
نجی ٹی وی چینل کے پروگرام ’لائیو ود نصر اللہ ملک‘ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ کل جب وزیراعظم عمران خان کا وفد سعودی عرب پہنچا تو واقعی ان کاسعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے جدہ ائیرپورٹ پر خود جا کر استقبال کیا ،اس سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے ہی سعودی عرب پہنچ چکے تھے،ان کی سعودی حکام سے ملاقاتیں بھی ہو چکی تھیں ،کل شام کو سعودی حکومت کی ایک اہم شخصیت جس کا اس سارے معاملے میں کافی کردار ہے ،ان سے میری بات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ شکر ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات دوبارہ’بیک ٹریک‘پر آ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسری طرف شاہ محمود قریشی نے بھی اسی قسم کے دعوے کئے ہیں اور دو معاہدوں پر دستخط بھی ہوئے ہیں تاہم جہاں تک میری انڈر سٹیڈنگ ہے وہ یہ ہے کہ جب ٹرمپ کی حکومت تھی تو امریکہ کی طرف سے پاکستان پر کچھ اس طرح کے پریشر ڈالے جا رہے تھے جو عمران خان کے لئے قبول کرنا کافی مشکل تھا،اس سلسلہ میں سعودی عرب کی طرف سے یہ پریشر تھا کہ ایک تو پاکستان ہندوستان کےساتھ اپنےمعاملات کو غیرمعمولی طور پر ٹھیک کرے اور دوسرا یہ کہ آپ نے دیکھا کہ متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور خود پاکستان کی انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے سعودی عرب کا نام تو نہیں لیا لیکن انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پاکستان پر دباؤ تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لیا جائے لیکن پاکستان نے وہ دباؤ قبول نہیں کیا ،اس کے علاوہ یمن کے ساتھ سعودی عرب کا جو تنازعہ ہے اس میں وہ چاہتے تھے کہ پاکستان اپنی فوج بھیج دے لیکن پاکستان نے اپنی فوج نہیں بھیجی بلکہ پاکستان نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ،اس پر سعودی حکومت اُن سے خوش نہیں تھی اور ایک ڈیڈ لاک کی صورتحال تھی ۔
حامد میر نے کہا کہ اس وقت تو یہ بھی خبریں آ رہی تھیں کہ سعودی حکومت اتنی ناراض تھی پاکستان کو دیا جانے والا قرض مقررہ مدت سے پہلے ہی انہوں نےواپس مانگ لیا تھا ،یہ ایک ایسی صورتحال تھی لیکن اس کے بعد ٹرمپ کی حکومت ختم ہو گئی اور جو بائیڈن کی حکومت آ گئی، ٹرمپ کے اور سعودی عرب کے بڑے اچھے تعلقات تھے لیکن جوبائیڈن کے سعودی عرب کے ساتھ اتنے اچھے نہیں ہیں اور اسی طرح جوبائیڈن کے پاکستانی حکومت کے ساتھ بھی اتنے اچھے تعلقات نہیں ہیں ، یہ ایک سپیس ملی ہے دونوں ممالک کو اور ایک ایکسٹرنل پریشر تھا جس کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوئی تھی اب وہ پریشر ختم ہو گیا ہےبلکہ اب امریکہ میں ایسی حکومت ہے جس کے دونوں ملکوں کے ساتھ تعلقات اتنے اچھے نہیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تیسری بات یہ ہے کہ شائد اب پاکستان نے یمن کے معاملے میں ریویو کیا ہے ، پہلے تو پاکستان یمن کے معاملے میں غیر جانبداری کا کردار ادا کر رہا تھا تاہم اب سننے میں آ رہا ہے کہ پاکستان کی طرف سے سعودی عرب کی جغرافیائی سالمیت ہے اس کو اگر خطرات لاحق ہوئے تو پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ ہم آپ کی بھر پور حمایت کریں گے ،اس کے علاوہ انڈیا اور پاکستان کا معاملہ ہے اس پر آپ جانتے ہیں کہ ایک بیک چینل شروع ہوا ہے،اس میں بھی سعودی عرب نے پاکستان سے وعدہ کیا ہے کہ وہ کوئی کردار ادا کرے گا ،اور بھی دو تین چیزیں ہیں جس کی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے جو تعلقات ہیں وہ ’بیک ٹریک‘ پر آ گئے ہیں تاہم ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہی پہلے جیسے گرم جوشی ہے لیکن برف پگھل چکی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں حامد میر نے کہا کہ ایشیاء میں جو کانفرنس ہو رہی تھی اس میں پاکستان نہیں گیا تھا ،یہ بات درست ہے کہ پاکستان پر پریشر تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے لیکن پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا لیکن دوسری طرف آپ دیکھیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان فروری میں جو سیز فائر ہوا ہے اس سیز فائرکے حوالے سے کشمیریوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ،پاکستان کی کسی پارٹی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا ،یہاں تک کہ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ ہمیں بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا ،اس میں ایسا لگتا ہے کہ کوئی بیرونی پریشر تھا جس پر یہ سیز فائر ہوا ہے اور وہ پریشر ہضم کرنے کے لئے مودی نے فروری میں ایک وعدہ تو کر لیا ہےلیکن کچھ دنوں کے بعد انہوں نے معاہدہ توڑ دیا ،کچھ دن پہلے تحریک حریت کشمیر کے رہنما محمد اشرف صحرائی کی حراست میں جو شہادت ہوئی ہے اس پر بھی کشمیریوں میں بڑی بے چینی اور بد دلی پھیلی ہوئی ہے۔ حامد میر نے کہا کہ میری اطلاع یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اب بھارت کی طرف سے براہ راست آل پارٹیز حریت کانفرس کی سری نگر موجود قیادت کو براہ راست اپروچ کیا جائے اور وہ بھی ان سے مذاکرات کرسکتے ہیں،اگر حریت کانفرنس انڈیا کے ساتھ براہ راست مذاکرات شروع کردیتی ہے تو پاکستان اس پر اعتراض کرنے کی پوزیشن میں اس لئے نہیں ہو گا کہ پاکستان نے حریت کانفرنس کو اعتماد میں لئے بغیر فروری میں بھارت کے ساتھ سیز فائر کا معاہدہ کیا تھا ،میں یہ سمجھتا ہوں کہ بیرونی دباؤ پر پاکستان نے جو انڈیا کے ساتھ انگیج منٹ کی تھی اور اپنا جو ایک موقف تھا کہ جب تک آرٹیکل370 ختم نہیں ہوتا ہم انڈیا کے ساتھ مذاکرات نہیں کریں گے تو پاکستان نے اپنے اس موقف سے روگردانی کی جس کا فائدہ اب انڈیا اس کا فائدہ اٹھائے گا ،میری اطلاع کے مطابق ہندوستان اپنی ڈبل گیم کے ذریعے پاکستان اور کشمیری قیادت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہےاور یہ اس لئے ہوا ہے کہ پاکستان نے بیرونی دباؤ پر بیک ڈور چینل کے ذریعے انڈیا کے ساتھ انگیج منٹ کی ۔
ایک اور سوال کے جواب میں حامد میر نے کہا کہ ہمیں دعا تو کرنی چاہئے کہ اللہ کرے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں لیکن اس کی ’قیمت ‘کیا ہے؟یہ ہمیں ابھی پتا نہیں ہے،پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کی کوئی بھی مخالفت نہیں کرے گا لیکن اگر اس خطے میں پاکستان کی جو خارجہ پالیسی ہے،اس میں آپ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی بہت بڑی تبدیلی لے کر آتے ہیں تو اس کا ہمیں فائدہ نہیں نقصان ہو گا ۔