اسلام آباد : وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ مولانا کا بیان جانیں دینے والے شہداء کی توہین کے مترادف ہے، مولانا فضل الرحمان غیرذمہ دارانہ بیانات سے اجتناب کریں، اپنی سیاست کے لیے قومی اداروں پر حملے کرنا قابل مذمت ہے۔ انہوں نے پی ڈی ایم صدر سربراہ جے یوآئی ف مولانا فضل الرحمان کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا کہ مولانا کا بیان جانوں کے نذرانے دینے والے شہداء کی توہین کے مترادف ہے۔ اپنی سیاست کے لیے قومی اداروں پر حملے کرنا قابل مذمت ہے۔ مولانا فضل الرحمان غیرذمہ دارانہ بیانات سے اجتناب کریں۔مولانا کو پاکستان کی صلاحیتوں پراس وقت بھی شک تھا جب کہتے تھے کہ طالبان پہاڑوں پرآپہنچے ہیں۔ مولانا ان معاملات پربات کررہے ہیں جن کا انہیں پتہ ہی نہیں۔ مولانا سیاسی انا کی تسکین کیلئے قومی معاملات پر من گھڑت شکوک نہ پالیں تو بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ مولانا نے جس اتحاد کی بھی قیادت کی وہ 12 گھنٹے بھی جنگ نہ کرسکا۔ مولانا صاحب دراصل بلاول بھٹو کی طرف سےعزت افزائی کا صدمہ برداشت نہیں کرسکے۔ واضح رہے نیوز ایجنسی کے مطابق پی ڈی ایم سربراہ مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد میں اپنی رہائشگاہ پر ختم قرآن پاک کی تقریب کے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم پہلے بھی میدان میں تھے، اب بھی ہیں اور آگے بھی میدان میں رہیں گے، رمضان شریف کے بعد ہم پہلے سے بہتر طاقت کے ساتھ میدان میں ہونگے۔ ہم جب بالکل تنہا تھے تب بھی پورے ملک کی سیاست پر چھائے ہوئے تھے،اب بھی اگر کوئی اکا دکا ادھر ادھر ہوجائے تو پرواہ نہیں کرنی چاہیے۔ آج کشمیر کا سودہ کرکے کشمیریوں کو دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے، قوم کے مستقبل کے فیصلے منافقت کے ساتھ اور چوری چھپے کئے جارہے ہیں،آج ملکی معیشت کو تباہ کردیا گیا ہے۔ تباہی کا عالم یہ ہے کہ ہم آج دشمن کے ساتھ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں رہے،آج ہم ہر مسئلے پر مفاہمت کے راستے ڈھونڈھ رہے ہیں،اسی مفاہمت کی بنیاد پر قوم کے فیصلے کئے جارہے ہیںاور پھر ان تمام فیصلوں کی کالک پارلیمنٹ کے ماتھے پر ملیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قوم کے ساتھ جھوٹ بولا جارہا ہے کہ ہندستان بات کرنا چاہتا ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری پوزیشن کمزور ہوتی جارہی ہے اور ہم ترلے کررہے ہیں،ہم 24 گھنٹے تک بھی جنگ لڑنے کے قابل نہیں ہیں، کمزور ہونے کی وجہ سے ہم بھارت کے ساتھ مفاہمت کی طرف جارہے ہیں۔ رمضان کے بعد پوری جماعت کو بلاکر اس صورتحال سے آگاہ کریں۔ حکمرانوں میں معاملات چلانے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، یہاں سیاست ہی ختم ہوچکی ہے، ہمیں ایسی قیادت کو آگے لانا ہوگا جس پر قوم اعتماد کرے۔
اگر آپ آئین اور قانون کی بات کرتے ہو تو اس کے تقاضے بھی پورے کرنے پڑیں گے۔ قومی معاملات میں دھاندھلی، بے ایمانی اور زور زبردستی نہیں چلے گی۔ ہمیں اپنے حلف اور عہد کی پاسداری کے تحت معاملات کو چلانا ہوگا۔ میں نے تھوڑی سی اشاروں کنایوں میں بات کہہ دی ہے، امید ہے جہاں پہنچنی چاہیے وہاں پہنچ جائے گی، ہم ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے ہیں، آپ چوری چھپے قوم سے دھوکہ نہیں کر سکتے۔ لوگ پاگل ہوئے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کرو،اسرائیل تو تمہارا بعد میں ہے، پہلے تم فلسطین کو تو تسلیم کرو،ہمیں باہمی اعتماد کے ساتھ ملکی معاملات بہتر کرنے ہونگے۔ ہم نے کوئی اسلحہ نہیں اٹھایا ہوا، نہ ہی ہمارا ایسا نظریہ ہے،علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہم نے ملک کے آئین کے ساتھ چلنا ہے،ملک پر پنجے گاڑے ہوئی مقتدر قوتوں کو بھی اسی طرز عمل کا احترام کرنا ہوگا،اگر احترام نہیں ہوگا تو پھر معاملات بگڑ سکتے ہیں، جن کو شاید کوئی نہیں سنبھال سکے گا۔ ہماری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ معاملات بہتر بنائے جاسکیں۔