کراچی کے حلقہ این اے 249میں آج ضمنی انتخاب ہو رہا ہے یہ نشست تحریک انصاف کے بوٹ فیم لیڈر فیصل واوڈا کے استعفے سے خالی ہوئی تھی، انہوں نے 3مارچ کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی صبح سویرے سینیٹ کا ووٹ ڈالا اور استعفا دے کر چلے گئے، ان کی جانب سے ان کے وکیل نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں بتایا کہ ان کے مﺅکل اپنی نشست سے مستعفی ہو گئے ہیں اس لئے یہ کیس مزید نہ چلایا جائے اس اعلان کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ انہوں نے بادی النظر میں غلط بیانی کر کے اپنی دہری شہریت چھپائی دو سال زیادہ عرصے تک یہ مقدمہ چل رہا تھا لیکن فیصل واوڈا کہیں بھی ”پھڑائی“ نہیں دیتے تھے وہ عدالت سے اپنے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران نمسلسل غیر حاضر رہے حتی کہ ایک بار انہیں پچاس ہزار روپے جرمانہ بھی ہو گیا شاید وہ ”اندروں“ جانتے تھے کہ غلط بیانی کی وجہ سے ان کی نشست خطرے میں ہے اس لئے انہوں نے استعفا دینے کے بعد پارٹی سے سینیٹ کا ٹکٹ لیا اور کراچی سے سینیٹر منتخب ہو گئے اب اسی نشست پر تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) پاک سر زمین پارٹی، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم (پ) کے امیدوار میدان میں ہیں۔
2018ءکے انتخاب میں فیصل واوڈا نے میاں شہباز شریف کو650ووٹوں سے ہرایا تھا جیت کا زیادہ مارجن نہیں تھا اسی لئے کہنے والے کہتے تھے کہ شہباز شریف کو پورے اہتمام سے ہرایا گیا ہے اس حلقے میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک ہے اور دوبار مسلم لیگی امیدوار یہاں سے جیت چکے ہیں اسی لئے شہباز شریف نے یہاں سے انتخاب لڑا، فیصل واوڈا مستعفی نہ ہوتے اور حسب معمول خود کو گھسیٹتے رہتے تو اگلے انتخابات کے قریب قریب تو شاید پہنچ ہی جاتے لیکن انہوں نے سینیٹ کے ایوان کی نشست چھ سال کے لئے پکی کر لی البتہ الیکشن کمیشن میں ان پر نا اہلی کی تلوار ابھی تک لٹکی ہوئی ہے جو اگر گر گئی تو پھرشاہد سینیٹ کی نشست بھی گئی۔ آج جو الیکشن ہو رہے ہیں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم (پ) نے ان کے التوا کی درخواست کی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے بروقت اور اعلان کے مطابق انتخاب کرانے کو ترجیح دی۔ آج جس حلقے میں انتخاب ہو رہے ہیں یہ مہاجر کیمپ، بلدیہ ٹاﺅن، رشید آباد، سعید آباد،اتحاد ٹاﺅن، قائم خانی کالونی، گلشن بہار ، فرنٹیر کالونی اور اورنگی ٹاﺅن پر مشتمل ہے اس حلقے کو منی پاکستان بھی کہتے ہیں جیسے کہ ناموں سے ظاہر ہے یہاں پورے ملک سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں، یہاں پنجابی، پختون، مہاجر، ہزارہ وال، بلوچ، سندھی وغیرہ سب آباد ہیں۔
اس حلقے سے تحریک انصاف کے امجد آفریدی، مسلم لیگ(ن) کے مفتاح اسماعیل، پاک سر زمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفےٰ کمال، پیپلزپارٹی کے قادر خان مندو خیل، ایم کیو ایم (پ) کے محمد مرسلین اور تحریک لبیک (اب کالعدم) کے مفتی نذیر احمد کمالوی امیدوار ہیں۔ موخر الذکر کا نام اس ترتیب میں اگرچہ آخیر میں آ گیا ہے لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ اس جماعت کا امیدوار ووٹ بھی سب سے کم لے گا کیونکہ2018ءکے عام انتخابات میں تحریک لبیک کے امیدوار نے جیتنے اور رنر اپ رہنے والے کے بعد تیسرے نمبر پر ووٹ حاصل کئے تھے۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا تحریک انصاف اپنی یہ نشست دوبارہ جیت پائے گی ۔جواب یہ ہے کہ ضروری نہیں کیونکہ عام انتخابات کے بعد موجوں کی روانی میں بڑا فرق ا ٓ چکا ہے اور کوئی ایک تند خولہر650سے حاصل ہونے والی جیت کو شکست میں بھی بدل سکتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ عام انتخابات کے وقت التفات دِلِ دوستاں کے پیمانے بھی چھلک چھلک جا رہے تھے اب یہ بھی اتنے لبالب بھرے ہوئے نہیں۔
مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ رہ چکے ہیں، ماہر معاشیات ہیں دھیمے انداز میں گفتگو کرتے ہیں، ٹافیاں گولیاں بنانا ان کا خاندانی پیشہ ہے اس لئے ان کی گفتگو میں بھی مٹھاس ہے البتہ بات دو اور دو چار کے حسابی کلیے کے مطابق کرتے ہیں کہ حساب دان بھی ہیں اور معیشت دان بھی۔ کہا جاتا ہے کہ محترمہ مریم نواز شریف ان کی انتخابی مہم میں شریک ہوتیں اور ”ووٹ کو عزت دو“ کا بیانیہ دہراتیں تو اس کا انہیں فائدہ ہوتا اور شاید ان کی جیت میں اس تقریب کا بھی کوئی کردار ہوتا جو نہیں ہو سکی لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ وہ اب لازماً ”ہار ہی جائیں“البتہ مریم نواز کے کراچی نہ جانے کی وجہ سے یار لوگوں نے یہ ہوائی اڑا دی ہے کہ دورے کا یہ التوا کسی ڈھیل، ڈیل یا مفاہمت کا نتیجہ ہے ایسا کہنے کے لئے چونکہ کسی گہری سوچ بچار کی ضرورت نہیں اس لئے جس کسی نے بھی یہ بات کہی اسے سوشل میڈیا کے ماہرین لے اڑے اور اب انہوں نے اپنے استدلال اور تجزیات کی ساری عمارت اسی کی بنیاد پر اُسار رکھی ہے۔ پیپلزپارٹی نے بھی یہاں اپنا امیدوار کھڑا کیا ہے، لیکن اس کی جیت کے امکانات ہوتے تو سندھ کی حکمران جماعت الیکشن کمیشن سے باقاعدہ التوا کی درخواست نہ کرتی۔باقی رہ گئیں پاک سر زمین پارٹی اور ایم کیو ایم (پ) تو یہ ایک ہی چشمے سے نکلنے والے دو دھارے ہیں، مصطفےٰ کمال نے ایم کیو ایم سے الگ ہو کر ہی اپنی جماعت بنائی ہے اس لئے اس حلقے میں جتنا بھی مہاجر ووٹ ہے وہ ان دونوں پارٹیوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ یہ حلقے کا ایک عمومی منظر ہے اس سے جو تصویر بنتی ہے وہ آپ خود بنا سکتے ہیں الیکشن میں جیت اور ہار تو ہوتی رہتی ہے لیکن کراچی ایسا شہر ہے جہاں ہر جیت اور ہر ہار کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی ہوتی ہے۔ اس لئے اب بھی جو جیتے گا وہ ایک نئی کہانی کا سرنامہ بھی ہو سکتا ہے۔