اسلام آباد : سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں بننے والے انکوائری کمیشن نے براڈ شیٹ کیس کی تحقیقات مکمل کر لیں۔ میڈیا ذرائع کے مطابق کمیشن کی جانب سے براڈشیٹ انکوائری کمیشن کی تحقیقات مکمل کیے جانے کے بعد 100 صفحات پر مشتمل رپورٹ بھی تیار کرلی گئی جو کہ رواں ہفتے کسی بھی دن وفاقی حکومت کو بھجوا دی جائے گی۔ بتایا گیا ہے کہ اپنی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کمیشن کی جانب سے تیار کی گئی 100 صفحات کی رپورٹ کے ساتھ مخلتف شخصیات کے بیانات اور دستاویزات کو الگ الگ رکھا گیا ہے ،
جب کہ کمیشن نے اپنی تحقیقات کے دوران 24گوہان کے بیان ریکارڈ کیے ، جن کی روشنی میں قوم کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والے برڈ شیٹ کمیشن کے ریڈار پر آگئے۔ ذرائع کے مطابق جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں بننے والے انکوائری کمیشن نے تحیققات میں معلوم کرلیا کہ براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ کس نے کیا اور کن وجوہات پر کیا؟ براڈ شیٹ کی رقم غلط افراد کو کس نے ادا کی ؟ اور کس نے کس کو کتنی رقم ادا کی اس کی تفصیلات بھی سامنے آگئیں ، براڈ شیٹ کمیشن نے تحقیقات کا باضابطہ آغاز 9 فروری کو کیا تھا ، اداروں اور محکموں کی جانب سے ریکارڈ ملنے کے بعد 22 مارچ تک مقررہ وقت سے پہلے ہی تحقیقات مکمل کرلی گئیں ۔ واضح رہے کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور حکومت میں نیب نے 2000 میں برطانوی کمپنی براڈشیٹ کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت کمپنی کو 200 سیاسی رہنماؤں ، سرکاری افسران، فوجی حکام اور دیگر کے نام دیے گئے تھے ، جن کی بیرون ملک جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کی تفصیل معلوم کرنے کے لیے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ کیا گیا جب کہ 28 اکتوبر 2003 میں نیب نے براڈشیٹ کے ساتھ معاہدہ منسوخ کر دیا۔
جس کے بعد براڈ شیٹ نے پاکستانی حکومت کے خلاف برطانیہ میں ثالثی کا مقدمہ جیتا ، عدالتی حکم پر کمپنی کے مالک کاوے موسوی کو برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانے کے بینک اکاؤنٹ سے لگ بھگ 29 ملین ڈالر کی رقم ادا کی گئی۔ یہ سارا معاملہ سامنے آنے کے بعد اپوزیشن اور عوامی حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کے بعد معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ پر مشتمل ایک رکنی انکوائری کمیشن قائم کیا گیا ، کمیشن کا دائرہ اختیار ناصرف براڈ شیٹ تنازع کے معاملات کی تحقیقات کرنے کا تھا بلکہ اس بات پر بھی غور کرنا تھا کہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں چھپائے گئے اثاثے برآمد کرنے کی بے دل اور غلط سمت کوششوں کی وجہ سے ریاست کو اتنا بڑا نقصان کیوں ہوا۔