Friday November 29, 2024

احسان اللہ احسان کے فرار میں ایک سے زائد افراد ملوث ہیں ملوث افراد کو چارج کر دیا گیا اور ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ ترجمان پاک فوج

راولپنڈی : پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ترجمان میجر بابر افتخار کا کہنا ہے کہ احسان اللہ احسان کے فرار میں ایک سے زائد افراد ملوث ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان فوجی تحویل سے فرار ہوئے تھے جنہیں چارج کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ احسان اللہ احسان کے فرار میں چند افراد ملوث تھے جن کے خلاف کارروائی کی گئی۔ اس واقعے میں ملوث افراد کی تعداد نہیں بتا سکتے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کارروائی سے متعلق پیش رفت جلد میڈیا کے ساتھ شیئر کی جائے گی۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں پتہ کہ احسان اللہ احسان کہاں ہے تام ان کی تلاش کے لیے کارروائی جاری ہے اور اس سلسلے میں جلد ہی اہم خبر سننے کو ملے گی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق غیر ملکی صحافیوں سے گفتگو میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق جس اکاؤنٹ سے ملالہ یوسفزئی کو تازہ دھمکیاں دی گئیں، وہ احسان اللہ احسان کا نہیں ہے۔ یاد رہے کہ پاک فوج کے ترجمان نے 17 اپریل 2017ء کو ایک پریس کانفرنس میں احسان اللہ احسان کے فوج کی تحویل میں ہونے کا انکشاف کیا تھا جس کے بعد 26 اپریل کو ان کا اعترافی بیان بھی جاری کیا گیا تھا۔ اپنے اعترافی بیان میں احسان اللہ احسان نے کہا تھا کہ وہ انڈیا کی خفیہ ایجنسی را کے لیے کام کر رہے تھے۔انہوں نے اپنا اصلی نام لیاقت علی بتایا اور کہا کہ ان کا تعلق مہمند ایجنسی سے ہے۔انہوں نے زمانہ طالب علمی ہی میں تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور وہ بعد میں تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی کے ترجمان بھی رہے۔

جس کے بعد فروری 2020ء میں پاکستانی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک آڈیو پیغام میں مبینہ طور پر تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن پاک فوج کی جانب سے اس معاملے پر کوئی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے اس مبینہ آڈیو پیغام میں کہا گیا تھا کہ پانچ فروری 2017 کو ایک معاہدے کے بعد میں نے خود کو پاکستان کے خفیہ اداروں کے حوالے کر دیا تھا‘۔ میں نے تین برسوں تک اس معاہدے کی پاسداری کی لیکن سکیورٹی اداروں نے مجھے بیوی بچوں سمیت قید کر لیا تھا۔احسان اللہ احسان نے اس مبینہ آڈیو پیغام میں کہا کہ تین برسوں میں پاکستانی فوج نے کیے گئے وعدے پورے نہیں کیے اور معاہدے کی خلاف ورزی کی، جس کے بعد وہ ’اپنی رہائی کے منصوبے پر کام کرنے کے لیے مجبور ہوئے۔ دو منٹ طویل اس آڈیو پیغام کے مطابق احسان اللہ احسان مبینہ طور پر 11 جنوری کو بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ مبینہ آڈیو پیغام میں مزید کہا گیا کہ وہ پاکستانی اداروں اور فوج کے بارے میں اور اپنی گرفتاری اور فرار کے بارے میں مزید تفصیلات بعد میں دیں گے۔

FOLLOW US