کوئٹہ : سی پیک گیم چینجر منصوبے ہے اور اس کی تکمیل کے بعد پاکستان کی قسمت بدلنے کے ساتھ ساتھ اس خطے کی حالت بھی بدل جائے گی حکومت کی طرف سے تو ایسی ہی باتیں سننے کو ملتی ہے مگر اس سی پیک پراجیکٹ کے تحت ترقی کا پہیہ چل بھی رہا ہے یا نہیں اس کی کوئی سمجھ نہیں آتی کیونکہ جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔پیپلز پارٹی سندھ کی ٹھیکیدار ہے اس لیے سی پیک میں اسے اپنا حصہ چاہیے جبکہ پنجاب اپنا حصہ مانگتا ہے ا ور بلوچستان جہاں کی گوادر بندگارہ کی وجہ سے یہ پراجیکٹ شروع ہوا اسے بالکل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ بلوچستان کے عوام چیخ رہے ہیں یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کو ہر حکومت میں نظر انداز کیا گیا ایک تو وہاں کے قبائلی سرداروں نے عوام کے لیے کچ بھی نہیں کیا کہ اگر حکومت نے انہیں کچھ دیا بھی تو انہوں نے اپنی جیب میں ڈال لیا۔ اب موجودہ وقت میں بھی سردار اختر مینگل جو کہ پہلے وفاقی حکومت کے اتحادی تھے اور بعدازاں چھے نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد نہ ہونے سے حکومت سے الگ ہو گئے تھے اب اس سی پیک کو تنقید کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔ اختر مینگل نے حال ہی میں ایک آن لائن انٹرویو میں کہا کہ بلوچستان میں سی پیک پراجیکٹ کے تحت ایک بھی منصوبے پر عمل نہیں ہو رہا۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور تربت میں اس وقت بھی ایران سے بجلی آ رہی ہے جبکہ بلوچستان میں ایک بھی سڑک سی پیک کے کھاتے میں نہیں بنی سوائے ایکسپریس وے کے۔اختر مینگل نے کہا کہ جب ایک بھی کام بلوچستان میں سی یک کی مد میں نہیں ہوا تو اس پراجیکٹ کے تحت65بلین ڈالر کی رقم کہاں گئی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ ایکسپریس وے بھی چینی کالونی ا ور چینیوں کے یہاں آنے جانے کے لیے بنائی گئی ہے وگرنہ شاید یہ بھی نہ بنائی جاتی۔