آج کے پاکستان میں اگر آپ کسی سے یہ پوچھیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کی ذاتی زندگی اور ان کے لائف سٹائل کے بارے میں سوچ کر اس کے ذہن میں کیا آتا ہے۔ توا س کا جواب ہو گا ، بس تین ہی باتیں، ایک تو یہ کہ وہ پینٹ کوٹ پہنتے تھے دوسرا یہ کہ وہ انگریزی بولتے تھے اور تیسرا یہ کہ وہ سیگریٹ پیتے تھے ۔شایدبہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ قائد اعظم کی نجی زندگی اور ان کا لائف سٹائل کیسا تھا،۔مسٹر جناح ہندوستان کے سب سے ماڈرن، جدت پسند اور فیشن ایبل لوگوں میں سے ایک تھے۔
اور ان کے انتہائی پرکشش سٹائل اورجاذب نظر شخصیت کی بنا پر ہندوستانی تو ہندوستانی ،خود انگریز مرد و خواتین بھی ان کےسحر میں مبتلا تھے۔سٹائل اور نفاست پسند ی بچپن ہی سے ان کی طبیعت کا حصہ تھی۔ ہاتھ اور کپڑے گندے کرنے والے کھیل کھیلنے کی بجائے مسٹر جناح لڑکپن میں ہی صرف کرکٹ اور بلیرڈ کھیلاکرتےتھے۔ وکالت پڑھ لینے کے بعد قائداعظم ہندوستان میں سب سے زیادہ فیس لینے والے وکیل بن گئے۔اور یوں روپے کی ریل پیل نے رئیسانہ سٹائل رکھنے کے ان کے شوق میں مزید نکھار پیدا کیا۔اس دور کے صحافی اور مصنف مسٹر جناح کی تصویریں بنانے اور ان پر لکھنے کےلئے ان کے آگے پیچھا گھوما کرتے تھے۔ایک مصنف سٹیلنے والپورٹ لکھتا ہے، کہمسٹر جناح کے پاس کپڑوں کے 200سے زیادہ جوڑے تھے۔ان کی قمیضیں کلف لگانے کی وجہ سے بے حد اکڑی ہوئی رہتیں۔ اور قمیضیں بھی ایسی جن کے کالر الگ کیے جاسکتے تھے۔اس پرکشش وکیل کا منفرد سٹائل یہ تھا کہ یہ ایک دن پہنی ہوئی ریشمی ٹائی دوبارہ کبھی نہیں پہنا کرتے تھے۔قائداعظم کریم ، خاکستری یا پھر لائٹ گرے جیسے ہلکے رنگوں کے ملبوسات ہی پسند کرتے تھے۔ ۔مسٹر جناح کے زیر استعمال کپڑوں کی سلائی میسرز لیسلے اینڈ رابرٹس لندن، واٹسن فیگرسٹورم اینڈ ہیوز لمیٹڈ لندن،لیفینز بومبے اور محمد ٹیلرز دہلی جیسے مہنگے برینڈز نے کی تھی۔1930سے لے کر ہندوستان کی تقسیم تک مسٹر جناح نے ولایتی کی جگہ زیادہ تر قومی لباس اپنا یا اور پھر ان کی پہنی ہوئی شیروانی بھی ایک فیشن بن گئی۔جس کے ساتھ یا تو وہ چوڑی دار پاجامہ یا پھر شلوار پہنا کرتے۔جبکہ ازبکستان کی کراکل نسل کی بھیڑوں کی اون سے تیار کی گئی ٹوپی ،جو بعد میں جناح کیپ کہلائی، ان کے لباس کا لازمی حصہ بن گئی۔ ان کے جوتوں کا سائز دس ہوتا تھااور چمک ایسی کہ عام سی تصویروںمیں بھی جوتوں کی چمچماہٹ صاف دکھائی دیتی تھی۔
مسٹر جناح کے زیر استعمال جوتوں میںبوٹ، سلیپون شوز،سینڈل، سلپرز،کھسے اور گرگابیاں شامل تھیں۔ان کے زیراستعمال جوتوں میں سےزیادہ میڈ ان انگلینڈ اور فرانس تھے۔مسٹرجناح کامہنگی کاروں کا شوق بھی بے حد مشہور تھا۔لندن میں مسٹر جناح بینٹلے جبکہ ہندوستان میں رولز رائس اور کاڈی لیک میں سفر کرنا پسند کرتے تھے۔مسٹر جناح سیگریٹ نوشی کے دلدادہ تھے۔وہ برطانوی برینڈ کریون اے کے سگریٹ جبکہ کیوبا میں تیار ہونے والے انتہائی اعلیٰ کوالٹی کے سگار پیتے تھے۔جبکہ ا ن کے زیر استعمال گھڑیاں بھی فیشن اور سٹائل میں اپنی مثال آپ تھیں۔ مسٹر جناح کے کھانے کی مقدا ر کم ہی ہوتی تھی۔ لیکن ناشتہ ان کی روزمرہ زندگی کا ایک اہم معمول تھا۔ وہ ناشتے میں تین چوتھائی ابلاہوا انڈہ اور مکھن ،شہد یا مارملیڈ لگا ایک ٹوسٹ لیا کرتے۔ دیسی کھانوں میں انھیں سری پائے،سالن ڈلے چاول اور نان پسند تھا، لیکن زندگی کا بڑا حصہ ولایت میں گزرنے کی بنا پر مسٹر جنا ح کو مچھلی اور فرنچ فرائز بھی بے حد پسند تھی۔مسٹر جناح نے گھر میں ہمیشہ دو باورچی رکھے۔ جن میں سے ایک ہندوستانی جبکہ دوسرا آئرش ہوا کرتا تھا۔پھلوں میںمحمد علی جناح آم اور انگورشوق سے کھاتے تھے۔ مسٹر جناح کے پالتوکتوں میں جرمن نسل کا ڈوبرمین اور سکاٹش نسل کا سکاٹی ڈاگ شامل تھے۔ جنھیں مسٹر جناح نے بڑے شوق سے پالا تھا۔ فیشن کے دلدادہ مسٹرجناح پراپرٹی کا بھی ایک خاص شوق رکھتے تھے۔ 1936میں انھوںنے ممبئی مالا بار ہل میں عین سمندر کے سامنے 10ہزار مربع میٹر پر پھیلی ایک عالی شان رہائشگاہ بنوائی۔اس بنگلے کی تعمیر کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ اس بنگلے پراس وقت بھی دو لاکھ روپے کی خطیر رقم خرچ ہوئی جو آج کی کرنسی بھی اربوں کی مالیت بنتی ہے۔یورپی طرز تعمیر کے تحت بنی اسی عالیشان عمارت کا ڈیزائن کلاڈ بیٹلے نامی ایک آرکیٹکٹ نے تعمیر کیا۔اس میں اٹلی کا انتہائی اعلیٰ معیار کا سنگ مرمر استعمال ہواجبکہ بنگلے کے ووڈ ورک کےلئے اخروٹ کی لکڑی استعمال کی گئی۔سنگ تراشی کےلئے خاص طور پر اٹلی سے کاریگر بلوائے گئے۔ اور یہ گھر مسٹرجناح نے اپنی نگرانی میں بنوایا۔مسٹرجناح نے ایک گھر لندن کےایک انتہائی مہنگے علاقے ہیمپسٹیڈمیں بھی بنوایا ۔ مسٹر جناح جب بھی انگلینڈ جاتے ،
اس گھر میں قیام کرتے ۔اس گھر کی کئی ایسی تصویریں آج بھی موجود ہیں جن میں مسٹر جناح کو اپنی بیٹی دینا جناح ، بہن فاطمہ جناح اور اپنے پالتو کتوں کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔مسٹر جناح کا ایک گھردہلی کی مشہور شاہراہ اورنگ آباد روڈ پر بھی واقع ہے۔مسٹرجناح اس گھر میں 1938سے تقسیم ہند تک مقیم رہے۔ یہاں پر کئی انتہائی عالی شان اور اہم پارٹیاں بھی ہوئیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ گھر ہے جہاں پر محمد علی جناح نے ہندوستان کے بانی موہن داس کرم چند گاندھی اور ہندوستان کے پہلے صدر راجیندرا پرشاد سے ملاقات کرکے ان کے سامنے مسلمانوں کےلئے ایک الگ ملک کی تجویز رکھی تھی۔مسٹر جناح کی آخری رہائشگاہ شاہراہ فیصل کراچی میں واقع ہے جسے انھوںنے کراچی کے ایک سابق مئیرسوراب کاوس جی سے خریدا تھا۔ یہ رہائشگاہ اب میوزیم بن چکی ہے۔ محمد علی جناح کے اس عالی شان اور باوقار طرز زندگی کا ہی نتیجہ تھا کہ ان کی شخصیت کو دیکھ کر ہندوستان کے وائسرے لارڈ مائونٹ بیٹن یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ انھوںنے قائداعظم جیسا حسین ، دو ٹوک بات کرنے والا ، خوبصورت شخصیت کا مالک ہندوستان بھر میں کہیں نہیں دیکھا۔ایک برطانوی جنرل کی بیوی کے الفاظ یہ تھےکہ مسٹر جناح ایک شاندار انسان ہیں۔ ان کا لباس مشہور اداکار ڈیو موریئیر جیسا ، اور ان کی انگریزی برک کی تقریروں جیسی ہے۔ان سے ملاقات کرکے میری زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہوئی۔