Friday November 29, 2024

فارن فنڈنگ کیس، تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوسکتی ہے، 2018 الیکشن غیر قانونی قرار دیے جا سکتے ہیں

سپریم کورٹ کے سابق جسٹس شائق عثمانی نے کہا ہے کہ اگر تحریک انصاف کے خلاف غیرقانونی فنڈنگ ثابت ہوجائے تو 2018 کے الیکشن غیرقانونی قرار پائیں گے اور حکومت ختم ہوجائے گی۔ سماء ٹی وی کے اینکر پرسن ندیم ملک سے گفتگو کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کہا کہ ماضی کے انتخابات میں تحریک انصاف کی ایک سیٹ ہوتی تھی اور اس کی بڑی وجہ پیسے کی کمی تھی۔ جب 2013 کے الیکشن ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ تحریک انصاف کے پاس بے انتہا پیسہ آگیا اور وہ اسے استعمال کرتے رہے۔ اب یہ معلوم نہیں کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ظاہر ہے کہ یہ فنڈنگ اندرون ملک سے نہیں ہوئی کیوں کہ ملک کے اندر ڈونرز اس پارٹی کو فنڈ دیتے ہیں جن کا اقتدار میں آنے کا امکان ہو اور تحریک انصاف کا ایسا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس لیے یہ سارا پیسہ باہر سے آیا ہے۔‘ جسٹس شائق عثمانی نے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ باہر سے پیسہ آنا کوئی غلط کام نہیں اگر وہ قانونی طریقے سے ہو۔ جو پاکستانی باہر رہتے ہیں، وہ پاکستان میں پارٹی کو فنڈ دینا چاہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ لیکن اگر فنڈ کا سورس غیرقانونی ہو اور پتہ ہی نہ ہو کہ کہاں سے آیا ہے تو یہ پارٹی کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ تحریک انصاف کے پاس کیا آپشنز ہیں جسٹس شائق عثمانی کے مطابق تحریک انصاف فنڈنگ کے ذرائع واضح کردے اور وہ قانونی فنڈنگ ہو تو پھر معاملہ ہی ختم ہوجاتا ہے مگر تحریک انصاف اس فنڈنگ کے ذرائع کے بارے میں وضاحت بھی نہیں کرسکتی۔ تحریک انصاف کے فنانس سیکریٹری اکبر ایس بابر نے بھی کیس اس لیے دائر کیا تھا کہ اس کو خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ یہ فنڈ کہاں سے آرہا ہے۔ اب تحریک انصاف نے بھی الیکشن کمیشن کو جواب دیا ہے کہ پیسہ ایجنٹوں کے ذریعے آیا ہے۔

اپوزیشن کا الزام ہے کہ بھارتی شہریوں اور ایک یہودی کمپنی نے بھی تحریک انصاف کو فنڈ دیا۔ اس بارے میں جسٹس شائق عثمانی نے کہا کہ ’اگر یہ سچ ثابت ہوتا ہے تو 2018 کا الیکشن غیرقانونی قرار پائے گا۔ حکومت ختم ہوجائے گی اور تحریک انصاف بھی تحلیل ہوجائے گی۔ جو پارٹی غیرقانونی فنڈنگ سے اقتدار میں آئے، کوئی عدالت اس کو برداشت نہیں کرے گی۔‘ تحریک انصاف نے ’غیرقانونی فنڈنگ‘ ایجنٹوں پر ڈال دی پاکستان تحریک انصاف نے تسلیم کیا ہے کہ عمران خان کی ہدایت پر امریکا میں مقرر کردہ دو ایجنٹوں نے پارٹی کے لیے غیرقانونی فنڈنگ کی ہے۔ تحریک انصاف نے طویل عرصے سے قانونی رکاوٹیں کھڑی کرکے فارن فنڈنگ کیس کو لٹکائے رکھا مگر حالیہ دنوں میں اپوزیشن کے احتجاج کے اعلان کے ساتھ کیس پر کارروائی تیز ہوگئی ہے۔ ماضی میں الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے جوابات میں تحریک انصاف دعویٰ کرتی رہی کہ پارٹی کو کسی قسم کی غیرقانونی فنڈنگ نہیں ہوئی مگر حالیہ جواب میں پارٹی کا موقف ڈھیلا ہوگیا ہے۔ الیکشن کمیشن کو جمع کرائے گئے جواب میں تحریک انصاف نے کہا ہے کہ عمران خان کی ہدایت پر امریکا میں فنڈنگ کیلئے دو ایجنڈوں کو تعینات کیا گیا اور انہیں فنڈنگ سے متعلق واضح ہدایات دی گئیں۔ اب اگر انہوں نے ان ہدایات پر عمل کرنے کے بجائے غیرقانونی فنڈنگ کی تو اس کی ذمہ داری تحریک انصاف پر عائد نہیں ہوتی۔
تحریک انصاف کے جمع کرائے گئے جواب کی کاپی سما ڈیجیٹل کے پاس موجود ہے۔ اس میں پارٹی نے خود کو ایجنٹوں کے ’کرتوت‘ سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں فنڈنگ کی ڈیوٹی دینے کے موقع پر تمام قوانین بھی سمجھائے گئے تھے اور ان ایجنٹوں نے بیان حلفی جمع کراتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے کسی قسم کی غیرقانونی فنڈنگ نہیں کی۔

تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس عمران خان کے قریبی دوست اور پارٹی کے بانی رہنما اکبر ایس بابر نے 2014 میں الیکشن کمیشن میں دائر کیا ہے۔ اس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ تحریک انصاف نے فنڈنگ اکاؤنٹس الیکشن کمیشن سے چھپائے ہیں جن میں بیرون ملک سے پیسہ آیا۔ الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کے دوران اسٹیٹ بینک نے اس الزام کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے 23 اکاؤنٹس ہیں۔ تحریک انصاف نے پھر موقف اختیار کیا کہ وہ ان 23 اکاؤنٹس کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو جمع کرائیں گے مگر اس کی کاپی درخواست گزار کو نہ دی جائے بلکہ اسکروٹنی کمیٹی کی کارروائی کے دوران درخواست گزار (اکبر ایس بابر) کے وکیل کو یہ تفصیلات دیکھنے کی اجازت ہوگی۔

FOLLOW US