اہور (ویب ڈیسک) ہم نے پہلے بھی انہی تحریروں میں عرض کیا تھا کہ پاکستان کو بھی آزاد کشمیر‘ گلگت بلتستان کے بارے جارحانہ پالیسی اختیار کرنی چاہیے اور عملی اقدامات کرتے ہوئے اپنی قانونی پوزیشن بھی مستحکم کرنی چاہیے‘ جیسا کہ سرتاج عزیز کمیشن نوے کی دہائی میں تجویز کرچکا ہے۔ نامور کالم نگار صابر شاکر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ اللہ کرکے اب نتائج آنا شروع ہوچکے ہیں اور ہم بھی غیر روایتی اور آؤٹ آف دی باکس کھیلنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان حالات میں گلگت بلتستان کے انتخابات انتہائی اہم ہوچکے تھے ؛چنانچہ پوری دنیا کی نظریں اس الیکشن پر جمی ہوئی تھیں۔
بیرونی ممالک بلکہ وفاقی دارالحکومت میں تمام بڑے سفاتخانے‘ خاص طور پر وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہر قدم ان سے پوچھ کر اٹھانا چاہیے‘ خاصے متحرک نظر آئے اور ان ملکوں کے سفارتکاروں نے الیکشن سے پہلے سیاسی قائدین کے ساتھ فرداًفرداً ملاقاتیں بھی کیں اور اپنے اپنے اندازے لگاتے رہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام دنیا کی نظریں گلگت بلتستان پر ہیں‘ واشنگٹن اور لندن ہرگز نہیں چاہتے کہ تنازعات حل ہوں اور پاکستان آگے بڑھے۔ قبائلی علاقہ جات کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے پر بھی ان سفارتخانوں نے نہ صرف دباؤ ڈالا بلکہ انتہائی منفی کردار ادا کیا‘ لیکن پاکستان جیت گیا اور ڈیورنڈ لائن کا مردہ گھوڑا بھی دفن ہوگیا۔اب گلگت بلتستان کی باری ہے‘جو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کے باوجود ہوا میں معلق رکھا گیا تھا۔ سی پیک اور بھاشا ڈیم کی تعمیر کو بھی متنازع بنانے کے لیے بھارت نے انہی بودی دلیلوں کو سہارا لیا۔ اب چونکہ وقت آگیا ہے کہ آگے بڑھا جائے اور آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت جونا گڑھ کے معاملے میں اپنی آئینی اور قانونی پوزیشن بہتر بنائی جائے تاکہ مستقبل محفوظ ہوسکے‘اس ضمن میں سیاسی قیادت بشمول آزاد کشمیر کی قیادت کو بھی اعتماد میں لیاجاچکا ہے۔
اس لیے گلگت بلتستان پر سیاسی نعرے بازی اپنی جگہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ہمارا سیاسی کلچر ہے کہ مرکز میں جس کی حکومت ہو کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی انہی کی حکومت بنتی ہے۔پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ادوار میں ایسا ہوچکا ہے‘ لیکن اس بار گلگت بلتستان کا الیکشن اس لیے بھی اہم ہوگیا تھا کہ شریف خاندان نے سزایافتہ ہونے کے بعد ایک نعرہ لگایا اور براہ راست عسکری قیادت کو بھی نشانہ بنایا۔مریم نواز اسی بیانیے کے ساتھ میدان میں اتریں اور انتخابی مہم میں اپنی پانچ سالہ کارکردگی کے بجائے اپنے نام نہاد بیانیے کی بنیاد پر ووٹ مانگے اور ان کی تقریروں میں نفسیاتی مسائل زیادہ دیکھنے کو ملے‘ لیکن بلاول اور مریم کی الیکشن مہم کے نتیجے میں جو نتائج سامنے آئے ہیں ان میں صاف نظر آرہا ہے کہ یہ الیکشن ماضی کی طرح نہیں لڑا گیا اور یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ہمارا سیاسی کلچرروایتی سیاست دانوں کے ہاتھ میں ہے جو جیتنے کے لیے اپنے طور پر ہر حربہ استعمال کرتے ہیں‘ لیکن بہرحال الیکشن ہوئے اور شریف فیملی کی اب بھی کوشش ہے کہ معاملات خراب ہوں؛ تاہم بلاول کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کس طرف جاتے ہیں۔ اپنی آخری تقریر میں ان کے متکلم مقتدرہ کے ارباب تھے‘ دوسری جانب تحریک انصاف آزاد امیدواروں کے ساتھ مل کر حکومت سازی کے لیے پرامید ہی نہیں بلکہ ایک طرح سے حکومت بنا بھی چکی ہے‘ لیکن مثالی نقشہ یہ ہوگا کہ گلگت بلتستان میں قومی حکومت بنائی جائے تاکہ جو قانون سازی ہونی ہے وہ باہمی اتفاق سے ہو نہ کہ کثرت رائے سے۔عمران خان صاحب کو دل بڑا کرنا چاہیے اور قومی سوچ کے ساتھ گلگت بلتستان میں حکومت سازی کرنی چاہیے۔شریف خاندان کو بھی اپنی سوچ کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے کہ جو بیانیہ لے کر وہ عوام کے پاس گئے‘ اُسے گلگت بلتستان کے باسیوں نے دریائے گلگت‘ دریائے ہنزہ‘ عطا آباد جھیل اور سکردو کی صد پارہ جھیل میں غرق کردیا ہے۔ اس لیے شریف فیملی ضد‘ اَنا‘ بغض‘ کینہ اور انتقام کو اپنی سیاسی یادداشتوں سے نکال کر اپنا ازسر نو جائزہ لے‘ورنہ ایک بڑی سیاسی جماعت تتر بتر ہوجائے گی‘ کیونکہ پاکستان کو وفاقی جماعتوں کی اشد ضرورت ہے اور سیاسی جماعتیں قدرتی عمل کے ذریعے ایک طویل سفر کے نتیجے میں معرض وجود میں آتی ہیں۔ مریم بی بی پر منحصر ہے کہ وہ ٹی ٹونٹی کھیل کر اپنے آپ کو ضائع کرنا چاہتی ہیں یا پھر ٹیسٹ میچ کی تیاری کرکے اپنے کیریئر کو طویل اور محفوظ بناتی ہیں۔مریم کو خطرہ اپنے آپ سے ہی ہے کسی اور سے نہیں۔ اگر انہوں نے اپنے ارد گرد کے دانشوروں سے چھٹکارا حاصل نہ کیا تو وہ انہیں بھی ان کے والد والی جگہ پر پہنچا کردم لیں گے۔