Thursday April 25, 2024

پاکستان کا نظام اور حکومت واٹس ایپ میسجز پر چلائے جانے کا انکشاف۔ رؤف کلاسرا کے انکشافات آپ کو دنگ کر ڈالیں گے

اسلام آباد (ویب ڈیسک) سینئر صحافی اور معروف ٹی وی اینکر رؤف کلاسرا نے انکشاف کیا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے ایک واٹس ایپ گروپ کے ذریعے عوام سے اربوں روپے لوٹ لیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کی معصومیت پر حیرت ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہمیں غلط اعدادوشمار دیے گئے جس سے چینی اور گندم کا بحران پیدا ہوا حالانکہ یہ شوگلز ملز کارٹل اور عمران خان کے قریبی ساتھیوں کی جانب سے کی گئی واردات ہے۔ رؤف کلاسرا نے بتایا کہ کمپٹیشن کمیشن آف پاکستان کی ایک سنسنی خیز رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں بہت بڑے انکشافات کیے گئے ہیں،

انہوں نے کہا کہ میرا اندازہ ہے شوگر ملز مالکان نے حکومت کا کندھا استعمال کرتے ہوئے چینی مہنگی کی اور 300 سے 700 ارب روپے کی خطیر رقم عوام کی جیبوں سے نکال کر اپنے اکاؤنٹ میں ڈال لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کے مطابق چینی ایکسپورٹ کرنے اور ملک میں مہنگا کرنے کے لیے حکومتی حلقوں میں بڑی لابنگ ہوتی ہے، لیکن رپورٹ میں ان لوگوں کا نام نہیں لیا گیا جو شوگر کارٹل کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر شوگر ملز سیاست دانوں کی ہیں اور وہی حکومتی پالیسیاں بناتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے شوگر ملز والے سمارٹ ہیں اور حکومتی حلقے یا بیوروکریسی بیوقوف ہے بلکہ سب ملے ہوتے ہیں۔ رؤف کلاسرا نے بتایا کہ کہ 2009 میں بھی ایسی ہی ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی اور حیرت انگیز طور پر پرانی اور نئی رپورٹس ایک ہی مرض کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور وہ ہے حکومت میں بیٹھے لوگوں کے مفادات جو چینی کا بحران پیدا کرتے ہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جن لوگوں کی جانب یہ رپورٹس اشارہ کرتی ہیں، اگر آپ نے انہیں سزائیں نہیں دینی تو ایسی رپورٹس تیار کرانے کا کیا فائدہ ہے؟

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 90 کے قریب شوگر ملز ہیں جن میں 40 فیصد کی ملکیت نواز شریف، آصف زرداری، جہانگیر ترین اور دیگر سیاستدانوں کی ملکیت ہیں۔ صرف جہانگیر ترین اور ان کے ماموں کا حصہ 25 فیصد بنتا ہے۔ رؤف کلاسرا نے انکشاف کیا ہے کہ ان تمام شوگر ملز مالکان نے ایک واٹس ایپ گروپ بنایا ہوا ہے جس میں یہ تمام لوگ اپنا اپنا ڈیٹا شیئر کرتے ہیں، یوں سب کو پتا ہوتا ہے کہ کس کے پاس کتنا سٹاک موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسی گروپ میں بڑے بڑے فیصلے ہوتے ہیں، اگر سپلائی زیادہ ہو تو اسے کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تاکہ مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں بڑھائی جا سکیں۔ رؤف کلاسرا نے اپنے وی لاگ میں اس واٹس ایپ گروپ کے متعلق مزید اہم انکشافات بھی کیے ہیں۔ رؤف کلاسرا نے بتایا کہ 1990 کی دہائی میں 30 ملز لگائی گئی تھیں، ان میں پرانی مشینری استعمال ہوتی ہے جس کی وجہ سے چینی مہنگی پیدا ہوتی ہے، اس لیے یہ غلط ڈیٹا حکومت کو دے کر اور چینی کی قیمتیں نہ بڑھانے کا کہہ کر ایکسپورٹ کی منظوری لے لیتے ہیں۔ رؤف کلاسرا کے مطابق رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ 2012 سے لے کر اب تک جب بھی چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی گئی ہے، مقامی مارکیٹ میں ہر بار اس کی قیمت بڑھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے جب چینی ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دی تو فروری سے ستمبر تک کے 8 ماہ تک 40 ارب روپیہ عوام سے لے کر شوگر ملز مالکان کے اکاؤنٹ میں گیا، یہ رقم 45 کروڑ روپیہ ماہانہ بنتی ہے۔

رؤف کلاسرا نے بتایا کہ جب پانامہ کیس چل رہا رہا تھا تو جاوید کیانی نے جے آئی ٹی کے سامنے بیان حلفی دیا تھا جس میں نوازشریف کے لیے منی لانڈرنگ کرنے کا اعتراف کیا گیا تھا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ شوگر ایسوسی ایشن پنجاب میں ایک اہم عہدے پر ہیں، جو بحران پیدا ہوا ہے اس میں جاوید کیانی اور پاکستان شوگر مل ایسوسی ایشن کا اہم کردار ہے۔ سینئر صحافی نے بتایا کہ شوگر ایڈوائزری بورڈ کی صدارت رزاق داؤد کرتے ہیں، اس بورڈ کا 20 مئی کو ایک اجلاس ہوا جس میں شوگر ملز مالکان نے بتایا کہ ہمارے پاس بہت سٹاک موجود ہے۔ اس لیے باہر سے چینی نہ منگوائی جائے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جولائی میں ایک اور اجلاس ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی سٹاک نہیں ہے۔ اس پر رزاق داؤد نے کہا کہ آپ نے تو کہا تھا کہ سٹاک موجود ہے اور دسمبر تک چینی باہر سے منگوانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ رؤف کلاسرا کے مطابق شوگر ملز مالکان نے کہا کہ ہم نے نہیں کہا تھا، آپ پنجاب کے کین کمشنر سے پوچھیں، ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ سٹاک موجود ہے۔ ان کے مطابق اس پر شوگر ایڈوائزی بورڈ نے کہا کہ آپ کے پاس تو واٹس ایپ گروپ میں مکمل ڈیٹا ہوتا ہے، اب آپ معاملہ کین کمشنر پر ڈال رہے ہیں۔ رؤف کلاسرا نے بتایا کہ میٹنگ میں موجود جاوید کیانی نے غلط اعدادوشمار دینے کا اعتراف کیا جس کے بعد حکومت کے ہاتھ پاؤں پھیل گئے مگر اب نومبر سے پہلے باہر سے بھی چینی آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

FOLLOW US