کراچی(ویب ڈیسک) کرنسی ڈیلرز کا کہنا ہے کہ انسداد منی لانڈرنگ بل کے پاس ہونے کے ساتھ ہی مارکیٹ سے بغیرلائسنس والے منی چینجرز غائب ہوگئے ہیں جس کے باعث امریکی ڈالر کی فروخت میں 30 سے 40 فیصد اضافہ دیکھا گیا ہے۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی منی لانڈرنگ کے خلاف بلز پاس کرانے کے عمل کا آغاز ہوا تھا، غیرقانونی کرنسی ٹریڈرز انڈرگراؤنڈ (روپوش) ہوگئے تھے۔کرنسی ڈیلرز کا کہنا تھا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سے 16 ستمبر کو پاس ہونے والے ایف اے ٹی ایف بلز میں اسمگلنگ اور کرنسی کی غیرقانونی تجارت سمیت منی لانڈرنگ کے لیے 10 سال تک کی سزا تجویز کی گئی ہے۔خیال رہے کہ ملک بھر میں ہزاروں بغیرلائسنس کے منی چینچرز کام کر رہے ہیں اور یہ ملک سے غیرملکی کرنسی کے غیرقانونی طریقے سے منتقلی میں مدد کرتے ہیں۔
دوسری جانب فاریکس ایسوسی ایشن پاکستان کے صدر ملک بوستان کا کہنا تھا کہ ‘گزشتہ 2 روز کے دوران کاؤنٹرز پر ڈالر کی فروخت تقریباً 60 سے 70 لاکھ ڈالر یومیہ تک پہنچ گئی ہے جبکہ عام طور پر یہ 40 لاکھ ڈالر یومیہ ہے’۔انہوں نے کہا کہ غیرلائسنس منی ایکسچینجر میں خوف بہت زیادہ ہے جس نے اوپن مارکیٹ میں لیکویڈٹی میں اضافہ کردیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے ایک غیرلائسنس یافتہ منی چینجر کو سزا دی گئی ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ملک میں کرنسی کی اسمگلنگ اور غیرقانونی تجارت کی لعنت کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ادھر ایک کرنسی ڈیلر جمال ابراہیم کا کہنا تھا کہ ‘انسداد منی لانڈرنگ قانون سازی سے کرنسیز کی اسمگلنگ رکے گی، غیرقانونی تجارت پر پابندی ہوگی، اوپن مارکیٹ اور بینکوں میں ڈالر اور دیگر کرنسیز میں اضافہ ہوگا جبکہ اس سے ایکسچینج ریٹ میں بھی استحکام آئے گا’۔اس حوالے سے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان کے سابق جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ قانون سازی ‘یقیناً کرنسی مارکیٹ میں تبدیلی’ لائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ ‘پاکستان میں کرنسیوں کی غیرقانونی تجارت اور اسمگلنگ کے لیے واضح خطرہ ہے اور میں سمجھتاہوں کہ حکومت اس غیرقانونی کاروبار کو برداشت نہیں کرے گی جو پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈال دے’۔ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ قانون سازی میں ترامیم کی منظور ملک کو گرے لسٹ سے نکالنے میں مدد گار ثابت ہوسکتی ہے اور کرنسیز کی اصل تخمینہ کی بنیاد پر ایک مستحکم ایکسچینج ریٹ مارکیٹ قائم کرے۔