Friday May 17, 2024

شہباز شریف اور زرداری ہار گئے ، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ جیت گئی ۔ صابر شاکر نے پاکستانیوں کو بڑی سیاسی بریکنگ نیوز دے دی

لاہور (ویب ڈیسک) سیاست کے میدان میں شدید اضطراب‘ لڑائی جھگڑوں اور الزامات کی بارش کے بعد کچھ ٹھہراؤ آنے کے امکانات پیدا ہوچکے ہیں۔ کراچی میں سیلاب اور شدید تباہی نے وفاق اور سندھ حکومت کو قریب آنے اور ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنے کے لیے فیس سیونگ کا ایک دروازہ کھول دیا ہے‘ نامور کالم نگار صابر شاکر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔جس سے کچھ فائدہ اٹھایا جاچکا ہے اور مزید اچھے کی امید ہے۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے لیے اسلام آباد راولپنڈی کے دورے بھی مفید ثابت ہوئے‘ آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد اور عمران صاحب کی حکومت گرانے کی جاتی امرا اور مولانا فضل الرحمن کی خواہش فی الوقت پوری ہوتی نظر نہیں آرہی۔

شہباز شریف کا زرداری صاحب سے کراچی میں جاکر ملاقات کرنے کا عمل بھی ان کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوا‘ البتہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کے کراچی میں گزرے دو روز بہت اہم تھے‘ جن میں کراچی کے عوام‘ کاروباری طبقے‘ ریٹائرڈ جرنیلوں اور میڈیا مالکان سے براہ راست رابطوں سے عسکری قیادت کو کراچی کے حالات کو سمجھنے کا موقع ملا اور ایک بڑا پیکیج ترتیب دیا گیا۔آصف علی زرداری موقع غنیمت جانتے ہوئے کام کرچکے ہیں ‘اگر وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہونے کے بعد بات آگے بڑھتی ہے تو پھر یہ خبر اور سیاسی میل جول جاتی امرا کے لیے اچھی نہیں ہوگی کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی دھارے میں آنے سے پارلیمان میں قانون سازی کا عمل شروع ہوجائے گا اور مسلم لیگ( ن) اپنے بیانیے کے ساتھ شورو غوغا کرتی رہے گی۔ آرمی چیف نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ خود کراچی پیکیج پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔کراچی پیکیج تین سال کے لیے ترتیب دیاگیا ہے اور موجودہ پارلیمانی سیٹ اپ کی مدت بھی تین سال ہی رہتی ہے‘ اس لیے توقع اور کوشش یہی کی جارہی ہے کہ موجودہ سیٹ اپ اپنی مدت پوری کرے۔ لگتا ہے جاتی امرا کے بیانیے کو قریب قریب کچھ ملنے والا نہیں اور شہباز شریف بھی اس کی نذر ہوجائیں گے

‘کیونکہ سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے الفاظ کہ کوئی فرد ادارے سے بڑا نہیں ہوتا اورکوئی ادارہ پاکستان سے بڑا نہیں ہے‘ اس لیے جو لوگ قانون کی گرفت میں آچکے ہیں اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ریاست کا موڈ کیا ہوگا؟ فیصلہ اہل سیاست ‘ اہل تجارت اور اہل صحافت اور ارباب حل وعقد نے کرنا ہے کہ وہ کس حد تک اپنے آپ کو قانون کے تابع کرتے ہیں کیونکہ چوری اور سینہ زوری اب شاید بیک وقت نہ چل سکیں۔

FOLLOW US