اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ میں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے جمع کروائے گئے جواب میں کہا ہے کہ احتساب میں تاخیر کی ذمہ دار عدالتی نظام ہے، عدالتیں نیب قانون کے بجائے ضابطہ فوجداری پر عمل کرتیں ہیں، اسٹے اور ضمانتوں میں سپریم کورٹ کے اصولوں پر عمل نہیں ہوتا، احتساب عدالتیں کم ہیں، ایک ایک میں درجنوں کیسز ہیں، مقدمات میں 50، 50 گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے، 30روز میں کرپشن مقدمات کا فیصلہ ممکن نہیں۔ بیرون ملک سے قانونی معاونت ملنے میں تاخیر، متفرق درخواستیں، پلی بارگین پر پابندی اور سیاسی شخصیات کی غلط عدالتی تشریح فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ ہے،
مقدمات کیلئے ریٹائرڈ سیشن ججوں اور اپیلوں کیلئے ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ ججوں کو مقرر کیا جائے جبکہ وزارت قانون سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے اپنے جواب میں کہا کہ 120 نئی احتساب عدالتیں قائم کرنے کیلئے2 ارب 86 کروڑ روپے کی ضرورت ہوگی جس کیلئے مشاورت کا عمل شروع کر دیا ہے لیکن 120نشستوں کی وزارت خزانہ اور اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے اجازت لینا ہوگی۔ تفصیلات کے مطابق عدالت عظمیٰ میں 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام، نیب کارکردگی سے متعلق اٹھائے گئے سوالات کے بعد چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے جواب جمع کروا دیا۔ اپنے جواب میں چیئرمین نیب نے بتایا کہ موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کیلئے ناکافی ہیں، حکومت کو کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ نیب عدالتوں کی تعداد کو بڑھایا جائے۔چیئرمین نیب نے کہا کہ کئی بار حکومت کو بتایا کہ مقدمات کے بوجھ کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہورہی ہے۔اپنے جواب میں چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ کراچی، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد اور بلوچستان میں اضافی عدالتوں کی ضرورت ہے، ہر احتساب عدالت اوسط 50 مقدمات سن رہی ہے۔چیئرمین نیب نے کہا کہ عدالتوں میں تعیناتی کیلئے 120 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز نہیں تو ریٹائرڈ جج بھی تعینات ہوسکتے ہیں،
اسکے علاوہ احتساب عدالتوں کے خلاف اپیلیں سننے کیلئے بھی ریٹائرڈ ججز کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔جواب میں کہا گیا کہ نیب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر سختی سے عمل کرتی ہیں، احتساب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر عمل نہ کرنے کا اختیار استعمال نہیں کرتیں۔انہوں نے کہا کہ ملزمان کی متفرق درخواستیں اور اعلیٰ عدلیہ کے حکم امتناع بھی کیسز کے فیصلوں میں تاخیر کی وجہ ہے جبکہ عدالتیں ضمانت کیلئے سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں پر عمل نہیں کرتیں، اس کے علاوہ ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کا طریقہ کار بھی وقت طلب ہے۔عدالت عظمیٰ میں جمع اس جواب کے مطابق بیرون ممالک سے قانونی معاونت ملنے میں تاخیر بھی بروقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ عدالتوں کی جانب سے ʼسیاسی شخصیات کے لفظ کی غلط تشریح کی جاتی ہے، غلط تشریح کے باعت سیاسی شخصیات کا مطلب غیر ملکی اداروں کو سمجھانا مشکل ہوجاتا۔چیئرمین نیب کے جواب میں کہا گیا کہ رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار استعمال کرنے سے سپریم کورٹ روک چکی ہے، رضاکارانہ رقم واپسی کی اجازت ملے تو کئی کیسز عدالتوں تک نہیں پہنچیں گے۔ قبل ازیں وفاقی وزارت قانون و انصاف نے 120 نئی احتساب عدالتوں کے قیام اور نیب کورٹس میں ججز کی تعیناتی کے حوالے سے عدالتی حکم پر اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا ہے۔ وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں بتایا گیا ہے کہ نئی احتساب عدالتوں کے قیام میں مالی مسائل کا سامنا ہے، نئی احتساب عدالتوں کے قیام کے بعد سالانہ 2 ارب 86 کروڑ روپے کے بجٹ کی ضرورت ہوگی۔