اسلام آباد (نیوز ڈیسک ) حکومت کی جانب سے بیوروکریسی میں بار بار تبدیلیوں سے انتظامی امور متاثر ہورہے ہیں، خفیہ ایجنسی کا اپنی رپورٹس میں تحفظات کااظہار، ذرائع کے مطابق حکومت کی جانب سے بیوروکریسی میں بار بار تبدیلیوں پر خفیہ ایجنسیوں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ سینئر صحافی انصار عباسی کے مطابق وفاق اور پنجاب میں بیوروکریسی میں تبدیلیوں کی وجہ سے گورننس کو اس قدر مشکلات سے دوچار کردیا گیا ہے کہ خفیہ ادارے بھی اب اس ضمن میں اپنی رپورٹس میں تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا ہے کہ موجودہ حکومت میں 5 انسپکٹر جنرلز اور چار چیف سیکرٹریز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے 4 چیئرمین اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن(ایچ ای سی) کے 9 سیکرٹریز تبدیل ہوچکے ہیں۔کابینہ ذرائع کے مطابق رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اہم عہدوں پر فائز افسران جو سیکرٹریٹ اور فیلڈ میں ہیں انہیں جلد تبدیل کرنے سے گورننس بری طرح متاثر ہورہی ہے۔
ایک عہدیدار کے مطابق وفاقی حکومت نے چیئرمین ایف بی آر کو چوتھی مرتبہ تبدیل کرتے ہوئے نوشین امجد کی جگہ کسٹمز سروسز کے جاوید غنی کو تعینات کیا ہے، ایسی صورت حال میں ایف بی آر کس طرح کارکردگی دکھا سکتا ہے۔وفاقی حکومت اب تک 5 انسپکٹر جنرلز اور چار چیف سیکرٹریز بھی تبدیل کرچکی ہے، چیف سیکرٹری اعظم سلیمان جنہیں گزشتہ برس انتظامیہ کو سیاست سے پاک کرنے کے اعلانات کے دوران تعینات کیا گیا تھا، انہیں 4 ماہ بعد ہی عہدے سے ہٹادیا گیا۔ دسمبر 2019 میں محکمہ آبپاشی سید علی مرتضٰی کو دیا گیا، فروری، 2020 میں زاہد زمان کو نیا سیکرٹری بنایا گیا لیکن پھر جون 2020 میں سیف انجم کی تعیناتی کردی گئی۔اس کے علاوہ کسی بھی سیکرٹری داخلہ کی مدت 4 ماہ سے زیادہ نہیں رہی، پہلے حکومت نے یوسف نسیم کھوکھر کو سیکرٹری داخلہ تعینات کیا اس کے بعد ان کی جگہ اعظم سلیمان کی تعیناتی کی، پھر ان کی جگہ یوسف کھوکھر کو لگایا گیا لیکن پھر دو ماہ بعد اعظم سلیمان کو دوبارہ یوسف نسیم سے تبدیل کردیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اس صورت حال سے پاکستان تحریک انصاف کے بہت سے اراکین بھی پریشان ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ اس طرح پارٹی کے منشور اور اصلاحاتی ایجنڈے پر عمل درآمد نہیں ہوسکتا ہے۔