کراچی (ویب ڈیسک) پاکستان میں مقیم امریکی بلاگر سنتھیا رچی نے اپنے حالیہ مضمون میں پاکستان پیپلز پارٹی کو مکرو فریب میں لتھڑی خاندانی میراث سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی پی پی نے صوبہ سندھ کے غریب عوام تک کی فلاح و بہبود کے لیے کسی احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔ سنتھیا نے ان تاثرات کا اظہار امریکی ایوارڈ یافتہ انگریزی جریدے ساؤتھ ایشیا میں اپنے چشم کشا مضمون ” پی پی پی میں قیادت کا بحران”میں کیا ہے۔ سنتھیا جنہوں نے حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چند کلیدی رہنماؤں پر آبروریزی اور جنسی حملوں کے سنگین الزامات عائد کیے ہیں، نے اپنے خصوصی مضمون میں پی پی پی کی چیئر پرسن اور ملکی تاریخ میں دوبار وزارتِ عظمیٰ کی مسند پرفائز بینظیر بھٹو کے دن دھاڑے قتل کے سربستہ راز پر کئی سوالات اٹھائے ہیں۔
انہوں نے کہا ہے کہ بینظیر بھٹو کے شوہر و سابق صدر آصف علی زرداری نے بینظیر کی لاش کے پوسٹ مارٹم کی اجازت نہیں دی اور بینظیر کے زیرِ استعمال موبائل فون جو بعد میں بلاول ہاؤس سے برآمد کیا گیا تھا کو تلف کردیا گیا۔ سنتھیا کے مطابق “بینظیر بھٹو کو جس انداز سے مارا گیا وہ محترمہ کے بعد رہ جانے والے سیاسی ورثے کی صحیح عکاس ہے”۔اپنے مضمون میں سنتھیا نے سوال کیا کہ “بینظیرسے علیحدگی کی صورت میں زرداری کو کس چیز سے ہاتھ دھونے پڑتے؟” سنتھیا نے اپنے مضمون میں اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ بینظیر بھٹو اپنے شوہر آصف علی زرداری کے مسندِ اقتدار کے ناجائز استعمال سے روگردانی کی پاداش میں احساسِ جرم کا شکار تھیں اور کئی ذرائع کے مطابق وہ آصف زرداری سے علیحدگی کے بارے میں غورکرر ہی تھیں۔ سنتھیا نے اپنے مضمون میں مزید لکھا کہ ان تمام ملازمتوں اور پانی کے ذرائع کا کیا بنا جن کا پُر زور وعدہ پی پی پی نے عام انتخابات سے قبل عوام سے کیا تھا۔ان کے مطابق “اگر پی پی پی ایک ریگستان پر حکومت کرنے کے قابل بھی نہیں تو وہ پورے مُلک کی باگ ڈور کس طرح سنبھال سکتی ہے؟” اپنی تحریر میں سنتھیا نے بلاول بھٹو کے سال 2018 کے اوائل میں کیلیفورنیا میں کیے گئے “تفریحی دورے”کا بھی ذکر کیا اور سوال کیا کہ بلاول نے آزادی ِاظہارِ رائے، خواتین کو اختیارات کی منتقلی اور اقلیتوں کے حقوق کی بحالی کے لیے عملاًکیا اقدامات کیے ہیں